حافظ نعیم الرحمن نے اپنے خطاب میں حکومت کے حالیہ اعلان پر تبصرہ کیا جس میں وزیراعظم نے بجلی کی قیمتوں میں سات روپے اکتالیس پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا۔ حافظ نعیم نے کہا کہ جماعت اسلامی اس کمی کا خیرمقدم کرتی ہے، لیکن یہ کمی ناکافی ہے اور حقیقی ریلیف تب ہی ممکن ہے جب بجلی کے پورے نظام میں موجود خرابیاں درست کی جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھی اور اسے بین الاقوامی عدالتوں کے خطرے کی بنیاد پر ان معاہدوں کو مقدر کا لکھا قرار دیا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ اس پورے مسئلے کو قوم کے سامنے رکھ کر تفصیلی ورکنگ کی، جس میں بتایا گیا کہ 1994 سے شروع ہونے والے زیادہ تر آئی پی پیز کے معاہدے جعل سازی، کرپشن اور اقربا پروری پر مبنی ہیں۔ ان میں سرکاری، نجی اور بین الاقوامی کمپنیاں شامل ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا جس کے بعد حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا گیا۔ اس دھرنے کا نتیجہ ایک معاہدے کی صورت میں نکلا جس میں یہ طے پایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے بعد حاصل ہونے والا فائدہ عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف کی صورت میں ملے گا۔ حکومت ابتدا میں اس پر تیار نہ تھی مگر جماعت اسلامی نے معاہدے میں یہ شق شامل کروائی۔ اس کے بعد بھی احتجاج جاری رکھا گیا اور 28 اگست کو ملک گیر ہڑتال کی گئی جس میں پوری قوم اور تاجر برادری نے شرکت کی۔
حافظ نعیم نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی گنجائش 45 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے مگر استعمال صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت 15 ہزار میگاواٹ کی ایسی بجلی کی بھی قیمت ادا کر رہی ہے جو پیدا ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے سستی توانائی کے ذرائع جیسے ہائیڈل، نیوکلئر، سولر اور ونڈ انرجی کی بات کی اور کہا کہ ہمیں درآمدی کوئلے اور مہنگے ایندھن پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ہر حکومت، چاہے وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مشرف دور، قاف لیگ، پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم کی ہو، سب نے آئی پی پیز کو تحفظ دیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم کے ای ایس سی کی نجکاری میں شامل ہونے سے کراچی کو نقصان پہنچا۔ عمران خان کی حکومت نے بھی صرف چند آئی پی پیز سے مذاکرات کیے اور ان میں بھی عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ ان کے قریبی افراد ان کمپنیوں کے مالکان میں شامل تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام آئی پی پیز اور نیپرا کا فارنزک آڈٹ کیا جائے کیونکہ نیپرا ہر جرم میں شریک ہے۔ رپورٹیں موجود ہوتی ہیں مگر فیصلے کرپشن کے حق میں ہوتے ہیں۔
حافظ نعیم نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہو چکی ہے مگر پاکستان میں نہ صرف قیمت کم نہیں کی گئی بلکہ ٹیکسز اور لیوی بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پیٹرول سستا نہیں ہوگا، بجلی کی قیمت مزید کم نہیں ہو سکتی اور صنعت نہیں چل سکتی۔ انہوں نے ایف بی آر کو بھی کرپشن کا مرکز قرار دیا اور کہا کہ اس کے ملازمین ہر سال 1300 ارب روپے کی کرپشن کرتے ہیں جبکہ ٹیکس سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقے سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاگیردار طبقہ جو حکومت میں ہے، صرف 4-5 ارب روپے ٹیکس دیتا ہے جبکہ تنخواہ دار طبقہ 500 ارب روپے جمع کراتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی طبقہ چینی مافیا ہے، انہی کے پاس آئی پی پیز ہیں، یہی طبقہ مراعات میں اضافہ کرتا ہے اور پارلیمنٹ میں اپنی تنخواہیں خود بڑھاتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے۔ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کے خلاف جو تحریک چلائی، اس میں ہزاروں کارکنان نے گرفتاریاں دیں، شیلنگ برداشت کی اور ایک پرامن احتجاجی کلچر کو فروغ دیا۔
حافظ نعیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام آئی پی پیز سے تیز رفتاری سے بات کی جائے اور ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے ری نیگوشییٹ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بھی آئی پی پی ایسی نہیں جو بین الاقوامی عدالت میں جانے کی جرات رکھتی ہو۔ اگر حکومت سنجیدہ ہو تو عوام کو حقیقی ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی طبقہ خود ان آئی پی پیز کا حصہ ہے، اسی لیے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سات تاریخ کو لاہور میں جماعت اسلامی کی مشاورت کے بعد تحریک کے نئے مرحلے کا اعلان کریں گے تاکہ یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو اور قوم کو سستی بجلی مل سکے۔