ہفتے کے روز امریکا بھر میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ واشنگٹن ڈی سی میں موسم اداس تھا، بارش ہلکی تھی، مگر جذبہ شدید۔ تقریباً 1,200 مقامات پر مظاہرے ہوئے، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ارب پتی اتحادی ایلون مسک کی پالیسیوں کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا عوامی احتجاج کہا جا رہا ہے۔
نیشنل مال میں لگ بھگ بیس ہزار افراد جمع ہوئے۔ ہر طرف سے لوگ آ رہے تھے، کچھ نے یوکرین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، کچھ نے فلسطینی کیفیہ اسکارف پہنے ہوئے تھے۔ “آزاد فلسطین” کے نعرے بھی سنائی دیے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس بھی اسٹیج پر آئے اور ٹرمپ کی پالیسیاں تنقید کا نشانہ بنیں۔
ریٹائرڈ سائنسدان ٹیری کلین، جو پرنسٹن سے آئیں، کہتی ہیں کہ وہ امیگریشن، تعلیم، معاشی پالیسیوں اور حتیٰ کہ ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے ٹرمپ کی سمت پر شدید تحفظات رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق ملک کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں۔
ویسٹ کیپ مے سے تعلق رکھنے والے وین ہوفمین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں سے کسان، ملازمین، اور عام شہری متاثر ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی بچتیں ضائع ہو رہی ہیں اور معاشی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
ان مظاہرین میں ایک چہرہ مختلف تھا۔ اوہائیو سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ کائل، جس نے “امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں” کی سرخ ٹوپی پہنی ہوئی تھی، تنہا ٹرمپ کی حمایت کرتی نظر آئی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ یقین نہیں رکھتی کہ لوگ ٹرمپ کے اتنے خلاف ہیں جتنا تاثر دیا جاتا ہے۔
اسی دن فلوریڈا میں ٹرمپ نے گولف کھیلا اور مار-اے-لاگو میں وقت گزارا، جبکہ چار میل دور سینکڑوں افراد ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ مارکیٹس گر رہی ہیں اور ٹرمپ گولف کھیل رہے ہیں۔
اسٹیمفورڈ میں 84 سالہ سو-این فریڈمین بھی موجود تھیں، جنہوں نے ہاتھ سے بنی ایک پلے کارڈ کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں لگا تھا ان کے احتجاجی دن ختم ہو چکے ہیں، مگر ٹرمپ اور مسک نے انہیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ 74 سالہ وکیل پال کریٹس مین نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا پہلا احتجاج تھا، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ سوشل سیکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات ختم ہو جائیں گی اور حکومتی نظام کمزور ہو جائے گا۔
یہ مظاہرے ایک اجتماعی احساس کی نمائندگی کرتے ہیں، کہ اگر عوام خاموش رہے تو بہت کچھ چھن سکتا ہے۔ یہ ایک دن نہیں، ایک پیغام تھا۔ جمہوریت کو بچانے کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔