Follw Us on:

فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

امریکی سرپرستی میں فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں اور ان میں ہزاروں شہادتوں کے ردعمل میں عوامی سطح پر اسرائیلی اور پرواسرائیلی بائیکاٹ کی مہم نئے سرے سے شروع ہوئی ہے۔

حالیہ مہم کی خاص بات یہ ہیکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سوشل میڈیا صارفین، تاجر، کاروباری ادارے اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔

اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا سمیت اتحادیوں فرانس، برطانیہ وغیرہ کی مصنوعات کے خلاف حالیہ مہم صرف مشروبات تک محدود نہیں بلکہ کاسمیٹکس، گروسری آئٹمز، ہاؤس ہولڈ پراڈکٹس، ڈیوائسز اور ڈیجیٹل خدمات کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔

eکا آغاز اور پھیلاؤ: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف سب سے پہلی بائیکاٹ مہم 2023 کے اکتوبر میں سوشل میڈیا پر پاکستان میں شروع ہوئی۔ اس مہم میں عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات، جیسے اسٹاربکس، میکڈونلڈز، کے ایف سی، اور دیگر مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ اس کے بعد، دیگر اسلامی ممالک جیسے ملائیشیا، مصر، اردن، کویت اور مراکش میں بھی اسی نوعیت کی مہمات چلائیں گئیں۔

ملائیشیا: ملائیشیا میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف بائیکاٹ مہم نے زور پکڑا اور یہ 2023 کے اواخر میں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے اس مہم کی حمایت کی گئی۔ خاص طور پر، اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور دیگر غیرملکی برانڈز کی مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔ ملائیشیا میں بائیکاٹ کے اثرات واضح تھے، جہاں اسٹاربکس نے تسلیم کیا کہ اس کے 400 سٹورز میں کم از کم 40 فیصد فروخت میں کمی آئی۔ حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی اور اس مہم کی پزیرائی میں عوامی سطح پر اضافہ دیکھنے کو ملااس کے علاوہ، کئی مقامی برانڈز نے بھی اس مہم کو تیز کرنے میں تعاون کیا۔

مصر: مصر میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ مصر کے مختلف شہروں میں لوگوں نے بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات کی نمائش پر احتجاج کیا۔  مصر میں اس مہم کا اثر خاص طور پر بڑے شہروں میں محسوس کیا گیا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں کئی غیرملکی کمپنیوں کی فروخت میں 25 سے 30 فیصد تک کمی آئی۔ خاص طور پر اسٹاربکس اور کے ایف سی جیسے برانڈز کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

اردن: اردن میں بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی اور عوامی سطح پر اس میں دلچسپی لی گئی۔ اردن میں احتجاجی مظاہرے اور سوشل میڈیا پر #BoycottIsrael کے ہیش ٹیگ کے ذریعے لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ اردن میں بائیکاٹ مہم کے اثرات مایوس کن نہیں تھے۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ تاہم، عالمی سطح پر اس بائیکاٹ کا اثر محدود رہا اور اسرائیل کو اس کی معیشت میں کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا۔

کویت: کویت میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کویتی حکومت نے اس مہم کی غیرمستقیم طور پر حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ اسلامی دنیا کی یکجہتی کا مظہر ہے۔کویت میں بائیکاٹ کے اثرات خاص طور پر غیرملکی کمپنیوں پر مرتب ہوئے، جنہوں نے کویت میں اپنے کاروبار کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 40 فیصد تک کمی آئی، اور کچھ کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھا دیں تاکہ عوام کی توجہ ہٹ سکے

مراکش: مراکش میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی۔ مراکش کے سوشل میڈیا اور عوامی فورمز پر اس مہم کو نمایاں طور پر پزیرائی ملی مراکش میں اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 15 سے 20 فیصد تک کمی آئی، اور لوگوں نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مراکش میں اس مہم کی کامیابی زیادہ تر عوامی سطح پر تھی اور اس کا اثر عالمی سطح پر کم تھا۔

پاکستان میں بائیکاٹ مہم کا اثر: پاکستان میں بائیکاٹ مہم کی مقبولیت خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تھی۔ حکومتی سطح پر اس مہم کی حمایت نہیں کی گئی، مگر عوامی سطح پر اس مہم کا زور پکڑا۔ مارکیٹ میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی، خاص طور پر ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے مصنوعات جو اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے جڑے ہوئے تھے۔

پاکستان بزنس فورم کے مطابق، اسرائیل سے جڑی مصنوعات کی فروخت میں 40-50 فیصد کمی آئی۔ اس کے علاوہ، کچھ غیرملکی برانڈز نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کو محدود کیا یا اپنے پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تاکہ بائیکاٹ کے اثرات کم کیے جا سکیں۔

پاکستان بزنس  فورم کے کو آرڈینیٹر ابراہیم زبیر نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  بائیکاٹ کی مہم میں عوام کی سرگرم شرکت ضرور نظر آئی ہے، خصوصاً میکڈونلڈ، کوکا کولا اور دیگر ایسی مصنوعات کا جنہیں لوگوں نے کچھ عرصے کے لئے چھوڑا۔ تاہم، یہ بائیکاٹ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک بڑی کاروباری کمیونٹیز اور حکومت اس میں شامل نہ ہوں۔ عوامی سطح پر بائیکاٹ کے اثرات تھوڑے سے نظر آتے ہیں کیونکہ جب تک یہ مصنوعات ہر بازار، ہر ریسٹورنٹ اور ہر دکان پر دستیاب ہیں، عوام کی مجبوری کبھی نہ کبھی انہیں خریدنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ریسٹورنٹ میں اگر 10 افراد ہیں، تو پانچ لوگ شاید ان مصنوعات کو چھوڑ دیں گے، لیکن باقی لوگ یا تو خاموشی سے خرید لیں گے یا کسی نہ کسی وجہ سے ان کو خریدنے پر مجبور ہوں گے اس بائیکاٹ کو موثر بنانے کے لئے کاروباری کمیونٹیز کا اتحاد ضروری ہے، اور اگر حکومت اس میں شراکت دار بنے، تو یہ ایک مضبوط اور کامیاب مہم بن سکتی ہے۔ عوام کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب یہ مہم وسیع سطح پر منظم ہو، تاکہ اس کا اثر اصل میں دیکھنے کو ملے۔

سابق ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اعجاز تنویر کے مطابق بائیکاٹ مہم کا خاص طور پر غیر ملکی ڈرنکس پر واضح اثر پڑا ہے۔ اس کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ متبادل پاکستانی مصنوعات کو جگہ بنانے کا موقع ملا ہے۔ مثال کے طور پر نیکسٹ کولا اور گورمے کولا نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک محدود مگر مؤثر جگہ بنائی ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی بڑی کمپنی یونگز بھی اپنی کولا مارکیٹ میں لا رہی ہے، جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔

تاہم، بائیکاٹ اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک ہم مکمل متبادل فراہم نہ کریں، خاص طور پر فاسٹ فوڈ چینز جیسے KFC یا McDonald’s کے لیے۔ مری جیسے سیاحتی علاقوں میں مقامی ہوٹلوں کی ناقص کوالٹی اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف بائیکاٹ کافی نہیں، ہمیں مقامی سروس اور معیار کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔

مزید یہ کہ بین الاقوامی سطح پر بھی، خاص طور پر امریکہ میں، ٹیرف کی بنیاد پر امریکن مصنوعات کے خلاف ریاستی سطح پر ردعمل دیکھا جا رہا ہے، جس سے بائیکاٹ مہم کو عالمی تقویت ملی ہے۔

ہمیں یہ مہم صرف بائیکاٹ تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ “میرا برانڈ پاکستان” جیسے ویژن سے جوڑ کر پاکستانی برانڈز کو حوصلہ دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر سمپلی صوفی، چیزیس، کیکس اینڈ بیکس جیسے برانڈز کو سپورٹ کریں، انہیں لکھیں، کال کریں کہ وہ اپنی کوالٹی اور سروس بہتر بنائیں اور شاخیں بڑھائیں۔ کیونکہ جب متبادل ہوگا تو صارفین خود بخود شفٹ ہوں گے  بائیکاٹ اگر صرف جذباتی ہو تو وقتی ہوتا ہے، مگر اگر ہم اسے متبادل مصنوعات، مقامی معیار کی بہتری، اور صارف کی آگاہی کے ساتھ جوڑ دیں تو یہ ایک دیرپا تبدیلی بن سکتی ہے۔

پاکستان بزنس فورم کے ممبر دانیال احمد بٹ کا کہنا ہے کہ جب بائیکاٹ ہوا تھا، اس وقت لوگوں نے حقیقتاً اشیاء کا بائیکاٹ کیا، حتیٰ کہ وہ پروڈکٹس جن کا کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ اس دوران لوگوں نے اپنی ضروریات کی اشیاء استعمال نہیں کیں، حتیٰ کہ ایسی مصنوعات کو بھی نظرانداز کیا جن کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ جب سیز فائر ہوا تو لوگوں نے سوچا کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں اور پھر انہوں نے خریداری کرنا شروع کر دی ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بائیکاٹ کے دوران، بعض پروڈکٹس کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ مثال کے طور پر، بچوں کے کھانے کی اشیا کی قیمت جو پہلے 300-400 روپے تھی، وہ بائیکاٹ کے دوران 800 روپے تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیکاٹ کے باوجود، لوگوں نے ان مصنوعات کو خریدنا جاری رکھا جہاں تک تاجر برادری کے متحد ہونے کا سوال ہے، اگر یہ ایک ساتھ آ جائیں تو ان کمپنیز پر معاشی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، تاجر برادری تب تک متحد نہیں ہو سکتی جب تک انہیں اس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ اگر کوئی کمپنی ایسی سامنے آئے جو ان سب کو فائدہ دے، تو وہ فوراً متحد ہو جائیں گے، لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس طرف جاتے ہیں جہاں سے انہیں زیادہ منافع حاصل ہو، اور اس کے بعد وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا معاشرتی یا اقتصادی اثر کیا ہوگا۔

گیلپ پاکستان کی جانب سے جاری ایک  سروے کے مطابق 62 فیصد پاکستانیوں نے اسرائیل اور  اس کے اتحادیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنےکا کہا جب کہ 24 فیصد نے بائیکاٹ نہ کرنےکا کہاسروے نتائج کے مطابق بائیکاٹ کرنے والوں میں 30 سال کی عمرتک کے نوجوانوں کی اکثریت ہے، اس عمر کے67 فیصد افراد نے بائیکاٹ کرنےکا بتایا30 سے 50 سال کی عمرکے 59 فیصد جب کہ 50 سال سے  زائد عمر کے 56 فیصد پاکستانیوں کی جانب سے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ جاری رکھنے کا دعویٰ کیا گیاسروے میں 65 فیصد مرد اور 58 فیصد خواتین اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتی دکھائی دیں بائیکاٹ کرنے  والوں کی شرح شہری آبادی میں زیادہ  ہے، شہروں میں 68 فیصد جب کہ دیہاتوں میں 59 فیصد نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔

متحدہ علماء محاذ پاکستان میں شامل مختلف مکاتب فکر کے 33 علماء مشائخ و مفتیان نے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے پرزور مطالبہ کیا  تھا کہ تمام تر اسرائیلی مصنوعات کا سرکاری سطح پر مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے تاکہ معاشی طور پر اسرائیل کو کسی حد تک کمزور کیا جاسکے۔ علماء نے کہا کہ سندھ و ملک بھر کے غیور تاجر حضرات نے جس طرح اپنے جائز مطالبات کے حق میں ملک گیر کامیاب ہڑتال کی ہے، اسی طرح تاجر برادری ملک گیر سطح پر فلسطینی مسلمانوں پر تاحال وحشیانہ بمباری انسانیت سوز جارحیت کے خلاف فلسطین کے مجاہدین و شہداء سے اظہار یکجہتی کیلئے تمام تر اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کردیں۔

اسرائیل کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اسے بڑے معاشی نقصانات سے دوچار کر سکتا ہے۔ اسرائیل کی معیشت کا ایک اہم حصہ اس کی برآمدات سے آتا ہے، جن میں ٹیکنالوجی، زراعت، اور دیگر صنعتی مصنوعات شامل ہیں۔

  1. اسرائیل کی معیشت کا حجم 530 ارب ڈالرز سے زائد ہے اس میں ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر، اور فوجی آلات جیسے اہم مصنوعات شامل ہیں، جو دنیا بھر میں فروخت کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کی سب سے بڑی برآمدات میں ہائی ٹیکنالوجی کی مصنوعات، جیسے کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر، سیکیورٹی سسٹمز، اور طبی آلات شامل ہیں۔
  2. بائیکاٹ سے ہونے والا مالی نقصان: اگر اسلامی دنیا کے ممالک اور دیگر انصاف پسند افراد اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو اسرائیل کی برآمدات میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ 2019 میں، اسرائیل کی سب سے بڑی منڈیوں میں امریکہ، یورپی یونین، اور ایشیا شامل تھے۔ اگر ان خطوں میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے تو اسرائیل کی برآمدات میں تقریباً 15-20 فیصد تک کمی آ سکتی ہے، جو کہ اسرائیل کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کرے گا۔
  3. سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجی انڈسٹری: اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر صنعت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجی کے کمپنیاں جیسے Waze، Mobileye اور Check Point سائبر سیکیورٹی کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ان ٹیکنالوجیز کا بائیکاٹ ہوتا ہے، تو اسرائیل کو عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں اپنی پوزیشن کمزور ہوتی نظر آ سکتی ہے، جو کہ اس کے لیے مالی طور پر نقصان دہ ہو گا

اگر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بڑی سطح پر کیا جاتا ہے، تو اسرائیل کو مالی طور پر تقریباً 10-20 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح پر اس کے تجارتی تعلقات میں تناؤ آ سکتا ہے، جس سے اس کی معیشت اور ساکھ دونوں متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو اسرائیل کو اس کے ظلم کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

فلسطین کا درد ہمارے ضمیر میں گہرے زخموں کی طرح اتر چکا ہے، اور یہ درد صرف وہی نہیں سمجھ سکتے جو خود اس کا شکار ہیں۔ مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم خاموش رہے، اگر ہم اس ظلم کو نظرانداز کرتے رہے، تو ہم اس ظلم کے برابر کے شریک ہیں۔ اس بائیکاٹ کی مہم صرف ایک احتجاج نہیں، یہ ایک تحریک ہے جو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزم کا مظہر ہے اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے، تو اس کا اثر صرف اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ عالمی سطح پر ایک پیغام ہوگا کہ مسلمان اور انسانیت پسند اس ظلم کے خلاف متحد ہیں۔ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطینیوں کے خون کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خاموش نہ رہیں، بلکہ ان کے لیے کچھ کریں

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس