کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مٹی بھی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے اور جب سیزن میں کاروبار ہوتا ہے تو لوگ دوبئی کو بھول جاتے ہیں۔ کراچی کے تاجروں کےمطابق اس بار عید کے موقع پر کراچی میں کاروباری سرگرمیاں گذشتہ سال کی نسبت محدود ہوئی ہیں۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے رہنما عتیق میر کے مطابق کراچی میں عید کی خریداری تقریباً 15 ارب روپے کی ہوئی ہے۔ عید کے موقع پر سامان کی قیمتوں میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہوا، کم خریداری کے بعد عید پر فروخت کیلئے گوداموں میں جمع کیا گیا 60تا 70فیصد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا مہنگائی، معاشی تباہی اور قوتِ خرید میں حوصلہ شکن کمی نے تاجروں کے کاروبارمتاثر کیا۔غریب ومتوسط طبقے کی عید کی خوشیاں منانے کے خواب بکھیر دیئے ہیں۔بیشتر خریداروں نے خواہشات کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر اکتفا کیا۔ تاجروں کے لئے کاروباری اور گھریلواخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے یا پھر اس کی کئی اور وجوہات بھی ہیں؟ کیونکہ گذشتہ سالوں میں کراچی کے تاجروں کی طرف سے عید کے موقع پر 70 ارب کی خریداری کا دعوی بھی سامنے آیا تھا مگر اس سال نمایاں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر کوپریٹو مارکیٹ کے صدر اسلم خان نے بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے کاروبار گذشتہ سالوں کی نسبت صرف پچاس فیصد ہوسکا ہے ،مہنگائی کے علاوہ مارکیٹ کے اطراف میں موجود پتھاروں اور پارکنگ کی وجہ سے لوگوں نے بازار کا رخ کم کیا ہے۔ لوگوں کی آمد و رفت اس کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے،ہم نے انتظامیہ کو بارہا شکایت کی جس پر انہوں نے کارروائی بھی کی مگر اس کے بعد یہ لوگ دوبارہ تجازوات قائم کردیتے تھے ۔ سڑک پر قائم اور پارکنگ کی ناکافی سہولیات سے شہری جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے اور انہوں نے دیگر بازاروں کا رخ کیا۔ مہنگائی نے اس قدرخریداری پر اثر ڈالا ہے کہ عید سے پہلے اور بعد میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہوتا ہے تو لوگوں نے جو کپڑے شادی پر استعمال کرنےتھے انہیں ہی عید کے موقع پر استعمال کیا ہے صرف جوتوں اور بچوں کےکپڑوں پر اضافی پیسے خرچ کیے ہیں۔
اسلم خان نے مزید کہا کہ کوپریٹیو مارکیٹ کپڑوں کے حوالے سے سب سے سستی مارکیٹ ہے۔ یہاں عام دنوں میں بھی سامان مناسب قیمت پر فروخت ہوتا ہے مگر عید کے موقع پر خریداری کا رجحان کم رہا ہے۔ کپڑوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جبھی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ ہم مارکیٹ کی کل آمدنی بتانے سے تو قاصر ہیں تاہم اس میں کمی لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو مہنگائی کو کنڑول کرنے اور بہتر معاشی پالیساں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کم ازکم تہووار کے موقع پر خریداری کرسکیں اور ظاہر ہے آمدنی زیادہ ہوگی توٹیکس ریٹ بھی اضافہ ہوسکے گا۔ ٹریفک پولیس اور کراچی پولیس نے بھی تاجروں کو انتظامی سہولیات فراہم کی ،شکایتی کیپمس قائم کیے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

کراچی کی مشہور لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے صدر طارق رفیق نے کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ سے بھی لوگ خریداری کے لیے اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں مگر اس سال کاروبار گذشتہ سال کی نسبت تقریبا 30 سے 40 فیصد کم ہوا ہے۔اس کی بڑی وجہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے اطراف میں پارکنگ کی ناکافی سہولیات اور ٹریفک پولیس کی جانب سے گاڑیوں کی لفٹنگ کا معاملہ بھی ہے۔ لیاقت آباد کی مارکیٹ میں متوسط طبقے کے لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں ہمارے پاس پارکنگ کی سہولت ناکافی ہے جبکہ رش ہونے کی صورت میں قائم پارکنگ سے اکثر گاڑیاں انتظامیہ کی جانب سے اٹھالی جاتی تھی اب ایک متوسط طبقے کا آدمی جس کا قل بجٹ ہی 2ہزار روپے ہے وہ کس طرح پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرسکتا ہے؟ جس کسی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اس نے پھر مارکیٹ کا رخ دوبارہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت لفٹنگ کا یہ واقعہ ہوتا تھا تو مارکیٹ میں افراتفری بڑھ جاتی تھی اور شہریوں کوخریداری کے لیے پرسکون ماحول دستیاب نہیں ہوتا تھا۔شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے مؤثر حکمت عملی کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ملیر کی لیاقت مارکیٹ میں بچوں کے کپڑے فروخت کرنے والے دوکاندار عاصم نے بتایا کہ عام طور پر تہووار کے موقع پر لوگ بچوں کے لیے 3 سے پانچ کپڑے لازمی خریدتے تھے، مگر اس بار صرف عید کا ایک سوٹ ہی خرید سکے،15 سو کے سوٹ کی قمیت کو بھی کم کروا کر ہزار روپے میں خریدا گیا۔ اس قسم کی خریداری میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ بات ٹھیک ہے مارکیٹ میں رش زیادہ تھا مگر اکثریت صرف ونڈو شوپنگ کے لیے آئی تھی۔
جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کی استاد ڈاکٹر صفیہ منہاج اس پوری صورتحال کو تھوڑا مختلف انداز سے دیکھتی ہیں ان کے مطابق یہ بات درست ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید متاثر ہوئی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ کاروبای سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ تاجر اس لیے آمدنی کو کم بتارہے ہیں تاکہ ایف بی آر سے بچا جاسکے اور ٹیکس سے چھوٹ مل جائے۔ ایک بار دعوی کیا گیا کہ لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں آج بھی لین دین کیش کی صورت میں ہوتا ہے تو ایف بی آر کے پاس اس آمدنی کا ریکارڈ کیسے ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر وہ ٹیکس کو اکٹھا کریں گے؟یہ سب ریکارڈ تو دستاویز میں موجود نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات جو تاجروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اب لوگ کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ مختلف شاپنگ مالز میں بڑی مارکیٹس کی نسبت زیادہ رش دیکھائی دیتا ہے۔ لوگ ایک برانڈ کا مہنگا جوڑا خریدنے کو زیادہ فوقیت دیتے بجائے اس کے وہ کم کوالٹی کے تین جوڑے خریدیں یہی ایک اہم پہلو ہے جس پر دھیان دینا ضروری ہے۔
ڈاکٹر صفیہ کے مطابق کراچی میں عید کے بعد اور پہلے شادیوں کا سیزن ہوتا ہے اکثر لوگ اب رمضان سے پہلے ہی عید کی خریداری کرتے ہیں کیونکہ تاجروں کی جانب سے رمضان میں قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ یہ بھی عید پر خریداری کم ہونے کی ایک وجہ ہے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ملک میں اتھارٹیز موجود ہیں اگر یہی لوگ اپنا کام ایمانداری کے ساتھ انجام دیں تو یقینی طور پر مہنگائی کو کم کیا جاسکتا ہے۔