صوابی کے دو بڑے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افغان باشندے گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں لیکن وہ اب بھی اپنے وطن واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں اس حوالے سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس کی صدارت اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر اصلاحدین نے کی۔
اس اجلاس کا مقصد افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی تیار کرنا تھا تاکہ یہ عمل پرامن طریقے سے مکمل ہو سکے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ صوابی ضلع میں 53,000 افغان پناہ گزین مقیم ہیں جن میں سے 30,000 گوہاتی کیمپ اور 23,000 گندف کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے علاوہ متعدد افغان خاندان ضلع کے مختلف دیہاتوں میں بھی مقیم ہیں۔ یہ کیمپ 1980 میں قائم کیے گئے تھے جب سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک لاکھوں افغان باشندے پاکستان میں پناہ گزین ہو کر رہ رہے ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں نے پہلے ہی افغانستان واپس جانا شروع کر دیا ہے تاہم جو افغان خاندان قانونی دستاویزات کے ساتھ یہاں مقیم ہیں وہ واپس جانے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور نہ ہی وہاں ان کے لیے مناسب رہائش کے انتظامات ہیں اور انہیں یہاں پاکستان میں اپنی زندگی گزارنے کے بہتر مواقع مل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:‘ افغانستان میں غیر قانونی اسلحہ’ مارکو روبیو کا پاکستانی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ
ایک افغان پناہ گزین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ “ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ طالبان حکومت نے ہمارے لیے کیا انتظامات کیے ہیں۔ ہم واپس جا کر کس طرح اپنی زندگی گزاریں گے، یہ ہم نہیں جانتے۔ یہاں ہمارے بچے بڑے ہو چکے ہیں اور ہمارے پاس روزگار کے وسائل بھی موجود ہیں۔”
ایک اور پناہ گزین نے کہا کہ “ہمیں اپنی مٹی، اپنی سرزمین سے محبت ہے، مگر حالات اتنے دشوار ہیں کہ واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہم یہاں محفوظ ہیں، ہمارے بچے سکول جاتے ہیں اور ہم کاروبار کرتے ہیں لیکن افغانستان میں ہمارا کیا ہوگا؟”
پاکستان کی حکومت افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور ضلع انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پرامن طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جو پالیسی تشکیل دی گئی ہے اس کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کو جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔ تاہم، ابھی تک صوابی کے پناہ گزین کیمپوں سے کسی بھی افغان خاندان نے واپس جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے حالانکہ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف پناہ گزینوں کے لیے مشکل بن چکی ہے بلکہ پاکستانی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے کہ وہ کس طرح اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرے۔
پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن ان کی مشکلات اور خدشات ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا عالمی تیل کی قیمتوں کی کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کا اعلان