غزہ میں اسرائیلی فورسز نے بمباری کی ہے جس میں کم از کم 19 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔
یہ شہادتیں آج صبح کے وقت پیش آئی ہیں اور یہ سلسلہ غزہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے۔
فلسطینیوں کی امداد کے لیے کام کرنے والی تنظیم “سیول ڈیفنس” کے مطابق بمباری میں ہلاکتوں کے علاوہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب، 6 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے خان یونس میں ایک میڈیا کیمپ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے صحافی احمد منصور کی شہادت کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔ احمد منصور کی حالت بہت نازک تھی اور وہ اس حملے میں نہیں سنبھل سکے اور ان کی شہادت کے ساتھ اس حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 3 تک پہنچ گئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک 50,695 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 115,338 دیگر زخمی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی
حکومت میڈیا آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کی لاشوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا اور ان کی ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ ہے۔
مجموعی شہادتوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ غزہ میں ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ان ممالک پر گفتگو کی جو غزہ سے جبری طور پر نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو پناہ دینے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔
اس دوران دونوں رہنماؤں نے فلسطینیوں کی بے دخلی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر بات کی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا جب حماس کے حملے میں اسرائیل میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔
اس خون ریز جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف کی ہلاکتیں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں اور جنگی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس میں نہ صرف انسانی زندگیوں کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس جنگ کے اثرات بھی واضح ہو رہے ہیں۔
عالمی رہنما اس جنگ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کر رہے ہیں لیکن اس بات کی کوئی واضح نشاندہی نہیں ہو پائی کہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل سامنے آ سکے گا۔
مزید پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ