Follw Us on:

آئین میں مسلسل تبدیلیاں: کب آئین کو مستقل تسلیم کیا جائے گا؟

زین اختر
زین اختر
Supreme court
سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: ’کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں‘(فائل فوٹو)

پاکستان کے آئین میں مسلسل تبدیلیاں ایک حقیقت بن چکی ہیں۔ پاکستان کے جمہوری سفر کی بنیاد سمجھے جانے والے  1973 کے آئین نے ملک کو ایک واضح قانونی اور سیاسی فریم ورک فراہم کیا۔ لیکن اس میں بار بار کی جانے والی ترامیم نے اس کی پائیداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

پاکستان کے آئین میں پہلی بڑی تبدیلی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ہوئی، جب 1973 کے آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ایک نیا آئینی فریم ورک متعارف کرایا گیا۔ ضیاء الحق کی حکومت کے بعد، 1990 کی دہائی میں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران کئی بار آئین میں ترمیم کی گئی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد حکومتی استحکام کو برقرار رکھنا اور مختلف سیاسی بحرانوں سے نمٹنا تھا۔

آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی سیاست پر نمایاں رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئین میں بار بار تبدیلیاں ملک کی جمہوریت کی پختگی کی طرف نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں آئین میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں کا ملک کی سیاسی استحکام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ آئین کی مستقل مزاجی کسی بھی ریاستی نظام کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس میں بار بار ترامیم کی جائیں تو اداروں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام اعتماد کی کمی کا شکار ہوتی ہے بلکہ سیاسی کشمکش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔”

پاکستان میں آئینی ترامیم کا عمل سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع رہا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم کیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اسی طرح کی سیاست کی۔ اس کے باوجود، عوام میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آئین میں کی جانے والی یہ ترامیم کیا واقعی ملک کے مفاد میں ہوتی ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں؟

ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “پاکستان میں آئینی ترامیم وقتی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے اور یہ عمل ملک میں جمہوریت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ اگر ترامیم عوامی فلاح کے لیے کی جائیں تو یہ جمہوریت کو مضبوط کرتی ہیں۔ لیکن ذاتی یا کسی خاص جماعت کے مفاد پر مبنی ترامیم ملکی اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔”

پاکستان میں آئینی ترامیم کے معاملے میں عدلیہ کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب آئین میں کچھ ترامیم کی گئیں تو ان ترامیم کو عدلیہ نے چیلنج کیا تھا اور کئی بار عدالتوں نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس کے بعد 2000 کی دہائی میں جب جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کیں تو اس کا بھی عدلیہ پر گہرا اثر پڑا۔

ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان نے اس معاملے پر کہا کہ “عدلیہ کا آئینی ترامیم پر نظرثانی کا اختیار جمہوری عمل کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ جب عدلیہ غیر جانبدارانہ انداز میں ترامیم کا جائزہ لیتی ہے تو یہ آئینی اقدار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ تاہم عدالتی مداخلت اگر سیاسی رنگ اختیار کرے تو یہ خود جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔”

پاکستان کے عوام ہمیشہ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ جب بھی آئین میں کوئی بڑی ترمیم کی جاتی ہے، تو اس پر مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حکومت کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں زیادہ تر آئینی ترامیم مخصوص سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے کی گئی ہیں۔ عوامی مفاد کے نام پر ترامیم کی جاتی ہیں لیکن اصل مقصد اکثر اقتدار کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ آئین کی روح کے مطابق ترامیم کا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح ہونا چاہیے جس کا پاکستان میں شدت سے فقدان نظر آتا ہے۔”

پاکستان میں آئین کی مستقل حیثیت کو ہمیشہ ایک سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ کئی بار آئین کو معطل کیا گیا، اور اس کی جگہ عارضی آئین یا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ 1973 کے آئین کو ایک مستحکم اور مستقل آئین کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، مگر بار بار اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔

ایڈوکیٹ لاہور ہائیکورٹ جعفر جمال نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ “پاکستان میں مستقل اور مستحکم آئین کے حصول کے لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے نہ صرف آئین میں کی جانے والی ترامیم کے حوالے سے ہونا چاہیے، بلکہ اس کے نفاذ کے عمل میں بھی ضروری ہے۔ آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔”

آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو کتنا اہمیت دی جانی چاہیے؟ کیا آئین میں تبدیلیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کی جانی چاہئیں یا سیاسی جماعتوں کے مفاد کے مطابق ہونی چاہیے؟ ان سوالات ک جواب میں ماہر قانون ایڈووکیٹ جعفر جمال نے کہا کہ “ملک میں آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ عوامی حمایت اور مشاورت کے بغیر کی جانے والی ترامیم جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی رائے کے مطابق آئین میں تبدیلیاں کرنے سے جمہوریت کا استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔”

پاکستان میں آئینی ترامیم ملکی ترقی پر بھی کسی حد تک اثر ڈالتی ہیں۔ آئین میں کی جانے والی تبدیلیاں اقتصادی ترقی کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور نقصان دہ بھی۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر کے مطابق “آئینی ترامیم کا اثر ملک کی ترقی پر مختلف طریقوں سے پڑتا ہے۔ اگر یہ ترامیم حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کو بہتر بناتی ہیں تو یہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم، اگر ترامیم کا مقصد صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا ہو تو یہ ملک کی ترقی پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “عالمی برادری آئین میں مسلسل تبدیلیوں کو پاکستان کی جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، کیونکہ یہ جمہوری استحکام کو متاثر کرتی ہیں۔ آئین کی مستقل حیثیت اور اس میں کم سے کم تبدیلیاں عالمی سطح پر پاکستان کی جمہوریت کے مضبوط ہونے کی علامت ہوں گی، جو بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کی ساکھ کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔”

پاکستان میں آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ اتفاق رائے واقعی میں ہی ممکن ہے؟

اس حوالے سے ماہر قانون ایڈووکیٹ جعفر جمال کا کہنا ہے کہ “ملک میں آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے۔ اس اتفاق رائے سے آئین میں تبدیلیوں کی نوعیت اور اثرات پر ایک مشترکہ نقطہ نظر قائم ہو سکتا ہے، جو ملک کی سیاسی استحکام کے لیے اہم ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں مل کر آئین کی مستقل حیثیت کے حق میں کام کریں تو یہ جمہوریت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔”

آئین میں ہونے والی تبدیلیاں ایک پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ ہیں۔ ان تبدیلیوں کا مقصد جمہوریت کو مستحکم کرنا یا سیاسی طاقت کو مضبوط کرنا ہو سکتا ہے، لیکن ان کے اثرات عوامی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ آئین میں تبدیلیوں کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا، اور یہ سوال ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ پاکستان کب اپنے آئین کو مستقل تسلیم کرے گا؟ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا تب تک پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ میں تبدیلیاں اور چیلنجز بدستور آتے رہیں گے۔

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس