غزہ کے شجاعیہ محلے میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم 35 فلسطینیوں کی شہادت اور درجنوں کے زخمی ہونے کی خبر ایک بار پھر اس انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے جو گذشتہ کئی ماہ سے غزہ پر جاری جنگ نے جنم دیا ہے۔
الجزیرہ اور مقامی طبی ذرائع کے مطابق ملبے کے نیچے اب بھی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے، اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا ہدف حماس کا ایک سینئر جنگجو تھا، تاہم متاثرہ علاقے کی شدت سے تباہی، درجنوں بے گھر خاندانوں کی ہلاکت اور امدادی کاموں میں مشکلات نے اس دعوے پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
شہری دفاع کے کارکنان اور مقامی افراد ملبے میں پھنسے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ناکہ بندی اور امدادی سامان کی شدید قلت نے ان کی کوششوں کو محدود کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کا علاج مشکل ہو چکا ہے، اور ادویات و خون کی اشد کمی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردِعمل دے، اقوام متحدہ

اسرائیلی حملوں کے تسلسل، بھوک کے بحران، اور طبی سہولیات کی تباہ حالی نے غزہ کو مکمل انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششیں، جن میں مصر، قطر اور امریکہ شامل ہیں، تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔
حماس نے اس تازہ حملے کو امریکی حمایت سے جاری قتل عام قرار دیتے ہوئے عرب و مسلم دنیا کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار مروان بشارا نے ان کارروائیوں کو نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے، جب کہ غزہ کے باسیوں کو سیکیورٹی زون سے دور رہنے کا اسرائیلی حکم اس خوف کو تقویت دیتا ہے کہ کہیں یہ قبضے کو مستقل بنانے کی کوشش نہ ہو۔
یہ صورتحال عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہے، جہاں انسانی جانوں کی بے وقعتی، اور مظلوموں کی آہ و بکا کو نظر انداز کرنا ایک گہری اخلاقی گراوٹ کی علامت بنتا جا رہا ہے۔