Follw Us on:

پاناما کی بندرگاہیں امریکا کے سپرد: کینال کے گرد فوجی گھیرا، کیا پاناما بھی دوسرا عراق بننے جا رہا ہے؟

حسیب احمد
حسیب احمد
پاناما کی بندرگاہیں امریکا کے سپرد

پاناما ایک بار پھر امریکا کی توجہ کا مرکز، ایک بار پھر متنازعہ معاہدہ اور ایک بار پھر وہی سوال، کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

امریکا اور پاناما کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے ایک نئے سیکیورٹی معاہدے نے خطے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ 

اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی اہلکار اب پاناما کینال کے گرد موجود متعدد فوجی اڈوں پر نہ صرف تربیتی مشقیں کر سکیں گے بلکہ دیگر “غیر متعین سرگرمیوں” کے لیے بھی تعینات ہو سکیں گے۔

یہ معاہدہ بظاہر تو بے ضرر معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اثرات غیرمعمولی حد تک گہرے ہو سکتے ہیں۔

جب امریکی وزیر دفاع ‘پیٹ ہیگستھ’ پاناما کے دورے پر پہنچے تو صدر ‘جوس راؤل ملینو’ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ
“اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں آگ لگ جائے تو مستقل امریکی اڈے بنا لیجیے۔”

یہ جملہ محض جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وہ تاریخی تلخیاں چھپی ہیں جو پاناما کے سینے پر آج بھی داغ کی مانند موجود ہیں۔

1989 میں امریکی حملہ، مانویل نوریگا کی معزولی اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت۔ یہ سب واقعات آج بھی پاناما کہ شہریوں کے ذہن میں تازہ ہیں، حالانکہ نئی ڈیل میں امریکا کو مستقل فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن “غیر معینہ مدت تک فوجی موجودگی” کی شق نے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ، جو رواں برس دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں وہ بارہا چین کی پاناما میں بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں پر تنقید کر چکے ہیں۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ چین نے پاناما کینال جیسے “اثاثے” پر غیرمعمولی اثر قائم کر لیا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے نہ صرف سیکیورٹی ڈیل پر زور دیا بلکہ چین کی بندرگاہی کمپنی “پاناما پورٹس کمپنی” پر دباؤ ڈال کر اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چینی کمپنی کی جگہ اب ایک امریکی سرمایہ کاری ادارہ، بلیک راک لے رہا ہے جس نے 19 ارب ڈالر میں دنیا بھر کے 43 بندرگاہی اثاثے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جن میں پاناما کی دو بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔

بیجنگ نے اس پیش رفت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس سودے کی اینٹی ٹرسٹ تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ یعنی صرف پاناما ہی نہیں اب یہ معاملہ عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان ایک نئے سفارتی محاذ کا آغاز بن چکا ہے۔

پاناما کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بینرز پر لکھا ہے کہ “یہ کینال ہماری ہے کسی کا ذاتی اسلحہ خانہ نہیں۔”

سیاسی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا اپنی عسکری موجودگی کو بڑھانے پر اصرار کرتا ہے تو یہ معاہدہ نہ صرف خطے میں بے چینی کا باعث بنے گا بلکہ پاناما کی اندرونی سیاست کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گا۔مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایران پر معاشی پابندی: دبئی میں بیٹھا انڈین شہری امریکا کے نشانے پر

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس