پاکستان تحریک انصاف 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سے مسلسل سیاسی کشیدگی کا شکار ہے اور اب تک اپنی سیاست کو مستحکم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ پارٹی کو قانونی مسائل، اندرونی اختلافات اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، جس کے باعث اس کی تنظیمی اور انتخابی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد پارٹی کو ایک بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب وہ رہنما بھی کنارہ کش ہو گئے، جنہوں نے کبھی عمران خان کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں۔ دوسری طرف جو افراد پارٹی قیادت کے ساتھ وفادار رہے، انہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ دنوں میں پارٹی کی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پارٹی کے اندر گروپنگ ہو گئی ہےایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی میں مصروف ہیں، بعض رہنماؤں کی جانب سے باقاعدہ پریس کانفرنسز کے ذریعے ایک دوسرے کے فیصلوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور بیانات میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں افضل مروت کو پارٹی کے عہدے سے دستبردار کیا گیا تو افضل مروت نے الزام لگایا کہ میرے خلاف سازش کی گئی ہے جس بنیاد پر عمران خان نے میرے خلاف ایکشن لیا، اسی طرح پارٹی میں الزام بازی کا کھیل ابھی بھی جاری ہے جو مزید پی ٹی آئی کے مستقبل میں مشکلات درپیش کرے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ عمران خان کے بغیر پارٹی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی یا نہیں۔ اس حوالے سے سینئر تجزیہ نگار اسماعیل قاسم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کا زیادہ تر دارومدار عمران خان کی شخصیت اور کرشماتی قیادت پر رہا ہے۔ تاہم، اگر پارٹی کوئی متبادل بااثر اور قابل قیادت نہ پیش کر سکی تو اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا وجود ممکن نہیں، یہ جملہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت ان کے حریفوں نے بھی کئی دفعہ دہرایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان خود ایک نظریہ ہیں اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی کو ووٹ ملتے ہیں۔ پاکستان میں نوجوان ووٹرز عمران خان کی قیادت کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیتے ہیں اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان پارٹی میں نہیں ہوں گے تو پی ٹی آئی کی ساکھ محفوظ نہیں رہے گی۔ اس حوالے سے اسماعیل قاسم نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے اندر کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو عمران خان کی سطح کی مقبولیت اور قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ البتہ، کچھ رہنما جیسے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر تجربہ کار ضرور ہیں، مگر عوامی سطح پر ان کی پذیرائی محدود ہے۔
عمران خان کی قید کے بعد سے پی ٹی آئی میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے پارٹی کی قیادت کو نقصان پہنچایا۔ اسماعیل قاسم کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی عمران خان کے بنائے ہوئے نظریات کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کچھ حد تک مقبولیت برقرار رکھی جا سکتی ہے، لیکن قیادت میں خلا کی صورت میں پارٹی میں زوال کا خدشہ موجود رہے گا۔
عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات اور ان کے نتیجے میں کئی رہنماؤں کا پارٹی سے بے دخل ہونا، پارٹی کی وحدت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اسماعیل قاسم نے اس حوالے سےکہا کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں مختلف دھڑوں کے درمیان قیادت کے حصول کی کشمکش بڑھ سکتی ہے، جس سے پارٹی میں مزید تقسیم کا خدشہ ہو گا۔

خیال رہے کہ عمران خان کو گزشتہ الیکشن میں نوجوانوں نے ووٹ دیے تھے اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ملنا صرف عمران خان کی ذات کی وجہ سے تھا۔ اب اگر عمران خان پارٹی کا حصہ نہ ہوں گے تو وہ جوش و خروش نظر نہیں آئے گا۔ اس حوالے سے اسماعیل قاسم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ووٹرز عمران خان کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، اس لیے ان کے بغیر پارٹی کو اسی جوش و خروش سے ووٹ ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر قیادت کوئی متبادل اور مضبوط شخص فراہم کرے تو کچھ ووٹرز پارٹی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
عمران خان کے بغیر پارٹی کی پالیسی بھی متاثر ہو گی جس سے مزید پی ٹی آئی کی ساکھ مزید شدت اختیار کر جائے گی اس حوالے سےسیاسات کے پروفیسر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پارٹی کی اہم سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور فیصلے پارٹی کی سمت اور نظریات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کو ایک واضح رہنما کی کمی محسوس ہو سکتی ہے۔
9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں نے بھی پارٹی کو خیرآباد کہہ دیا تھا اور عمران خان کی قید کے بعد پارٹی کی قیادت میں اختلافات نے جنم لیا۔ اب بھی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما متحد ہو سکیں گے یا نہیں۔ اس حوالے سے محمد حمزہ نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب نہ ہوں، کیونکہ عمران خان کی موجودگی میں ہی پارٹی کے مختلف دھڑے اکٹھے تھے۔ تاہم، اگر رہنمائی مضبوط ہو تو پارٹی کو کچھ حد تک متحد رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی پر مزید پابندیاں لاگو ہو سکتی ہیں، جس سے مستقبل میں پارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ پروفیسر محمد حمزہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مستقبل صرف قانونی مسائل پر نہیں، بلکہ اس کی عوامی مقبولیت اور داخلی استحکام پر بھی منحصر ہوگا۔ اگر پارٹی اپنی پالیسی اور قیادت میں توازن قائم رکھ سکے تو وہ پابندیوں کو بھی کامیابی سے عبور کر سکتی ہے۔

اگر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے تو عمران خان کے جیل سے باہر آنے کے بعد پارٹی کا مستقبل کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، پروفیسر حمزہ کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ڈیل کر لیتی ہے تو پارٹی وقتی طور پر فائدہ تو حاصل کر لے گی، لیکن اپنے ووٹرز کا اعتماد کھو بیٹھے گی اور اس سے عمران خان کا بیانیہ بھی ختم ہو جائے گا، جس سے عمران خان کی مقبولیت متاثر ہو سکتی ہے۔
اگر عمران خان پارٹی سے نااہل ہو جاتے ہیں تو پارٹی کی قیادت کے لیے مزید اختلافات پیدا ہوں گے۔ پروفیسر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بغیر پارٹی ادھوری ہو جائے گی اور پارٹی میں بہت زیادہ اختلافات جنم لیں گے۔ کیونکہ ان کے مضبوط رہنمائی کردار کی کمی سے مختلف رہنماؤں میں اقتدار کے لیے کشمکش شروع ہو سکتی ہے، جس سے پارٹی میں مزید رہنما علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں اور پارٹی کے ختم ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔