ایران اور امریکا آج سنیچر کے روز عمان میں ایک اہم سفارتی ملاقات کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کو بحال کرنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو فوجی کارروائی کا راستہ اپنایا جائے گا۔
ایران مذاکرات کے لیے تیار تو ہے، لیکن اسے اس عمل پر شبہ ہے کہ یہ کسی با معنی معاہدے کی طرف لے جا سکتا ہے، خاص طور پر ٹرمپ کے رویے کے پیش نظر، جنہوں نے بارہا دھمکی دی ہے کہ ایران نے اگر اپنا جوہری پروگرام بند نہ کیا تو اسے فوجی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دونوں فریق پیش رفت کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں، تاہم اب تک اس پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ مذاکرات براہ راست ہوں گے یا بالواسطہ۔ ایران بالواسطہ مذاکرات کا خواہاں ہے، جبکہ ٹرمپ براہ راست بات چیت پر زور دے رہے ہیں۔
خطے میں جاری تنازعات جیسے کہ غزہ، لبنان، شام، اور بحیرہ احمر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر یہ بات چیت اہم ہے اور یہ کسی حد تک حالات کو پرامن بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر بات چیت ناکام ہوتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تصادم کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان اڈوں سے اس پر حملہ کیا گیا تو سنگین نتائج ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا امریکی ٹیرف کے جواب میں 125٪ ٹیرف لگانے کا اعلان، عالمی تجارت متاثر
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو بات چیت کے لیے مکمل اختیار دے دیا ہے۔ ایران کی طرف سے مذاکرات کی قیادت عراقچی کریں گے جبکہ امریکہ کی نمائندگی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف کریں گے۔

ایرانی اہلکار کے مطابق بات چیت کا دورانیہ اور کامیابی اس بات پر منحصر ہو گی کہ امریکی وفد کتنی سنجیدگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایران نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے میزائل پروگرام یا دفاعی صلاحیتوں پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے، لیکن مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ایران کا یورینیم کی افزودگی کا عمل ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران اب 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر چکا ہے، جو ایٹم بم کے لیے مطلوبہ سطح سے محض ایک قدم نیچے ہے۔
ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر کے دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی تھیں، جس کے بعد ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیزی سے بڑھا دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مذاکرات امن کی طرف بڑھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور واضح کیا کہ امریکہ کسی بھی صورت ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔