ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر کوئی ٹینکر ڈرائیور نشے کی حالت میں یا بغیر لائسنس کے گاڑی چلا رہا ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے ٹینکر سے اگر کوئی ہلاکت واقع ہو تو یہ قتلِ خطا نہیں بلکہ قتلِ عمد کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر کی پولیس غیر مقامی ہے، اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ڈمپرز کو شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت کون دیتا ہے؟ سندھ میں “سسٹم” سیاسی سسٹم سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکا ہے، اور یہ سوال اہم ہے کہ اسے چلا کون رہا ہے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچی شراب پینے والوں کو تو معاوضہ دیا جاتا ہے، لیکن ان افراد کو معاوضہ کیوں نہیں دیا جاتا جو ڈمپر سے کچلے جاتے ہیں؟ یہ معاملہ سیاست کا نہیں بلکہ انسانی اور انتظامی ہے، جسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم حکومت کو عوام کے جذبات سے کھیلنے نہیں دیں گے۔ ڈمپرز کو شہر سے گزرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈمپر جلانے کے شبے میں بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ جب عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ قانون ظالم اور بے حس ہو چکا ہے، تو وہ مجبور ہو کر خود ردِ عمل دیتے ہیں۔