مسلسل 15 ماہ سے اسرائیل کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے تل ابیب کو خبردار کیا ہے کہ سیزفائر معاہدے کے بعد کیے جانے والے حملے اسرائیلی مغویوں کی زندگی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
غزہ کی فوج کے طور پر کام کرنے والے القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سیزفائر کے اعلان کے بعد اسرائیل نے جن مقامات پر حملے کیے، ان میں سے ایک جگہ پر ایک اسرائیلی خاتون مغوی بھی موجود تھی۔
ابو عبیدہ نے واضح کیا کہ اس خاتون کا نام جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں رہا کیے جانے والوں کی فہرست میں شامل تھا۔
انہوں نے اسرائیلی خاتون مغوی کی حالت کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم یہ ضرور کہا کہ اس مرحلے میں کوئی بھی اسرائیلی حملہ مغویوں کی آزادی کو کسی سانحے میں بدل سکتا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں طے پایا ہے کہ فریقین اپنے ہاں قید افراد کو رہا کریں گے۔
فلسطین میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے باوجود اسرائیل نے مقبوضہ پٹی پر حملے جاری رکھے ہیں۔ اس سلسلے کے تازہ حملوں میں 80 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق بدھ کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلی حملوں میں 21 بچوں اور 25 خواتین سمیت 81 فلسطینی شہید ہوئے۔
ایجنسی کے ترجمان نے بتایا کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری رہے، اور 81 فلسطینی صرف غزہ پٹی میں شہید ہوئے۔

بدھ کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ قطر، مصر اور امریکا کی کوششوں سے معاہدہ کامیاب ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیزفائر 19 جنوری سے نافذ العمل ہوگی۔ قطری وزیراعظم کے مطابق حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مختلف مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔
اسی دوران اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ حماس معاہدے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ تاہم حماس نے اس بیان کو الزام تراشی قرار دیا ہے۔
حماس کے سیاسی ونگ کے رکن عزت الرشق نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کو الزام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘حماس ثالثوں کے اعلان کردہ جنگی معاہدے پر کاربند اور اس سے مخلص ہے۔’