ایران اور امریکا نے ہفتے کے روز عمان میں ہونے والی بات چیت کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے اگلے ہفتے دوبارہ مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکا فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ مذاکرات کی بنیاد کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اگر اگلے ہفتے اس بنیاد کو طے کر لیا گیا تو حقیقی بات چیت کا آغاز ممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز، پرسکون اور مثبت ماحول میں ہونے والی پہلی براہِ راست بات چیت قرار دیا، جو ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ہوئی ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ دونوں فریق مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں، اور غالب امکان ہے کہ اگلی ملاقات آئندہ ہفتے ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے مذاکرات میں سنجیدگی پائی جاتی ہے اور یہ صرف وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ مسائل پیچیدہ ہیں، لیکن امریکی ایلچی اسٹیون وٹکوف اور ایرانی وفد کے درمیان براہِ راست رابطہ باہمی مفاد کے حصول کی سمت ایک مثبت قدم ہے۔
صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، تاہم انہوں نے مکمل معاہدہ ہونے تک اس پر زیادہ بات نہ کرنے کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران سے متعلق صورتحال امید افزا ہے۔
پیر کے روز ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ عمان پہلے بھی مغرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے، خاص طور پر ایران میں قید غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کی رہائی کے سلسلے میں۔