Follw Us on:

’رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے‘ سربیا میں صدر کی حمایت میں ہزاروں افراد کا احتجاج

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

ہفتے کے روز سربیا، کوسوو اور بوسنیا کے قصبوں سے ہزاروں افراد بسوں کے ذریعے بلغراد پہنچے تاکہ صدر الیگزینڈر ووچک کی حمایت میں منعقد ہونے والی ریلی میں شرکت کر سکیں۔ صدر ووچک کی حکومت کو مہینوں سے جاری بدعنوانی مخالف مظاہروں کی وجہ سے سخت دباؤ کا سامنا ہے، اور ان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

شہر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، اہم سڑکیں بند رہیں اور پارلیمنٹ کے سامنے فاسٹ فوڈ اور مشروبات کے اسٹالز لگائے گئے۔ اس ریلی کو 15 مارچ کو ہونے والے بڑے حکومت مخالف مظاہرے کا ردعمل تصور کیا جا رہا ہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جو حالیہ دہائیوں کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔

سربیا میں ایک ریلوے اسٹیشن کی چھت گرنے سے 16 افراد کی ہلاکت کے بعد سے عوامی غصہ بڑھا ہے۔ اس واقعے نے حکومت پر بدعنوانی اور انتظامی لاپرواہی کے الزامات کو مزید ہوا دی، جس کے بعد طلباء، اساتذہ اور کسانوں سمیت مختلف طبقات نے احتجاج شروع کیے۔

صدر ووچک، جو پچھلے 12 سال سے اقتدار میں ہیں، مظاہرین کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے” اور اس بات پر زور دیا کہ احتجاج جتنا بھی ہو، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ریلی کا ایک مقصد ووچک کی سربراہی میں نئی سیاسی تحریک کو فروغ دینا بھی تھا، جو سربیائی پروگریسو پارٹی کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی یکجا کرے گی۔ اس تحریک کا باضابطہ آغاز تاحال باقی ہے۔

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے ویڈیو لنک کے ذریعے ریلی سے خطاب کیا اور سربیائی عوام کو ہنگری کی حمایت کا یقین دلایا۔

تاہم، ملک بھر میں کشیدگی برقرار رہی۔ نووی پزار میں حکومت مخالف کارکنوں نے ریلی میں جانے والی بسوں کو قصبے سے باہر نکلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ بلغراد میں بھی مظاہرین نے شہر کے مرکز کی جانب آنے والی بسوں پر انڈے پھینکے، جس پر پولیس نے مداخلت کی۔ حالات دن بھر کشیدہ رہے، اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس