امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے متنازع معاشی فیصلوں کے دفاع میں یہ بیانات بارہا دہرائےکہ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گےیہ دوا ہے،جو تکلیف دہ تو ہےمگر ضروری ہےلیکن بدھ کی صبح ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا”BE COOL. Everything is going to work out well” تو دنیا پھر ان کے اگلے قدم کے متعلق تجسس میں پڑگئی اور صرف چار گھنٹوں بعد جو خود کو ہر طوفان میں ثابت قدم ظاہر کررہا تھا دباؤ میں آکر پیچھے ہٹ گیا ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ 90 دن کے لیے چین کے علاوہ 75 ممالک کے خلاف بڑھائے گئے تجارتی محصولات (ٹیرِف) عارضی طور پر معطل کر رہے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک پر ریسی پروکل ٹیرف لگائے تو یہ صرف ایک اقتصادی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ یہ پوری دنیا کیلئے ایک جارحانہ پیغام تھا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں، ہمیں صرف فائدہ چاہیے یہ انداز اکنامک ڈپلومیسی کے بنیادی اصولوں کیخلاف ہے،کیونکہ اکنامک ڈپلومیسی میں باہمی اعتماد، احترام اور مفادات کااشتراک شامل ہوتا ہے امریکہ نے بغیر کسی سفارتی مشاورت کے یکطرفہ طور پر فیصلے کیے، نہ جی7، نہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیش(ڈبلیو ٹی او)، نہ ہی اپنے نیٹو یا یورپی اتحادیوں کو اعتماد میں لیا۔جس سے امریکی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانس، جرمنی، جاپان اور کینیڈا جیسے روایتی اتحادی ممالک پر بھی ٹیرف لگا دیا،دنیا کو ایسا محسوس ہوا کہ امریکہ عالمی تجارتی نظام کے قوانین سے نکل کر ٹریڈ از وارکی پالیسی اپنا رہا ہے،امریکی صدر کے ان اقدامات سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اب اتحادیوں کی قیادت کی بجائے اکیلا سوداگربن چکا ہے؟اکنامک ڈپلومیسی میں کرنسی کا استحکام ایک کلیدی فیکٹر ہوتا ہے امریکی اقدامات سے عالمی مارکیٹ میں ڈالر پر انحصار کم کرنے کی بحث چین، روس اور خلیجی ریاستوں میں زور پکڑ چکی ہے یہ وہی ممالک ہیں جو پہلے سے ڈی ڈالرائزیشن کی طرف جا رہے تھے یعنی امریکہ کے رویے نے خود اپنے مالیاتی اثر و رسوخ کو کمزور کیا ہے۔
ٹرمپ نے چین کو ٹیرِف سے مستثنیٰ نہیں رکھا، مگر باقی دنیا پر بھی ٹیکس عائد کر کے ایک غیر یقینی بلاک تخلیق کر دیا جس کا فائدہ چین نے اٹھایا۔چین نے خود کو استحکام کا مرکز بنا کر پیش کیایورپ، لاطینی امریکہ اور افریقی ممالک نے امریکی مارکیٹ پر انحصار کم کرنے پر غور کرنا شروع کر دیاٹرمپ کی پالیسیز کا خیال تھا کہ امریکہ کا فائدہ پہلے، باقی دنیا بعد میں مگر اکنامک ڈپلومیسی کا اصل اصول یہ ہے کہ مفادات کا اشتراک، تعلقات کا احترام اور اثر و رسوخ کا استحکام سب سے پہلے ہےٹرمپ کی پالیسیاں کم عرصے کے فائدے کیلئے ہیں،مگر ڈپلومیسی لمبی مدت کے اعتماد کا کھیل ہے، جو چین بالکل خاموشی کیساتھ یہ کھیل کھیل رہا ہے اور امریکہ اپنا اتحادیوں سمیت دنیا بھر میں اعتماد کھو رہا ہے۔
ٹرمپ کےاقدامات نے بظاہر عالمی معیشت کو یرغمال بنا دیا ہےچین نے فوری ردعمل میں جوابی ٹیرِف عائد کیے،بین الاقوامی مارکیٹس غیر مستحکم ہو گئیں اور سرمایہ کاروں میں بے یقینی پھیل گئی، دنیا کے معاشی ماہرین اسے گلوبلائزیشن کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ ٹرمپ خود ہار چکا ہے ؟ٹرمپ کا حالیہ یوٹرن نہ صرف ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ امریکی قیادت کے عالمی تصور کو بھی متزلزل کرتا ہے،ٹرمپ کایوٹرن جو خود کو ایک ناقابلِ شکست سوداگر “ماسٹر نیگوشیئیٹر” اور عالمی شطرنج کا کھلاڑی سمجھتا ہے وائٹ ہاؤس کی ٹیم نے اسے ایک حکمتِ عملی قرار دے کر بچاؤ کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ ایک اہم معاشی اور سیاسی شکست ہے اس فیصلے نے امریکہ کو ایک غیر یقینی اور ناقابلِ بھروسا تجارتی شراکت دار بنا دیا ہے امریکی ڈالر، عالمی مالیاتی نظام اور امریکی اقتصادی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ واقعی معاشی قیادت کے قابل ہیں؟
ٹرمپ کا خواب وہ امریکہ ہے جو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں تھا جب دنیا جنگوں سے تباہ حال تھی اور امریکہ ایک معاشی دیو تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اب مینوفیکچرنگ روزگار صرف 8 فیصد رہ گیا ہے جو 1970 کی دہائی میں 30 فیصد سے زیادہ تھا اس کا واپس آنا ایک خواب ہے،ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ صدرات ناکام ہے،مگر ٹرمپ کی غیر معمولی اقدامات اور ان کے خلاف بڑھتے ہوئے ردعمل سے اندازہ ہوتا ہےکہ ان کی صدارت خطرے میں ہے ٹرمپ کی صدارت اب آزمائش کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہےاب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں صدر ٹرمپ اپنی معاشی جنگ کو کیسے سنبھالتے ہیں اور کیا وہ ایک بار پھر اسی انداز میں پلٹیں گے، جیسے وہ پہلےپلٹے ہیں؟ یا ایک نئی جنگ میں کود پڑتے ہیں۔