دنیا کو ایک بار پھر جنگ کی بو محسوس ہونے لگی ہے، ایران کے جوہری پروگرام پر امریکی موقف نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کردی ہے۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کی زبان سے نکلے الفاظ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک اعلان جنگ کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “ہم نے پہلے بھی اپنی فوجی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ کریں گے۔”
یہ الفاظ دنیا کو 2003 میں عراق کی جنگ کی یاد دلواتے ہیں، لیکن اس بار ہدف ایران ہے، وہی ایران جس پر مغرب کو شبہ ہے کہ وہ جوہری بم کی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں شروع ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کو عالمی میڈیا نے ایک نئی امید کا نام دیا، لیکن امریکی قیادت کے بیانات اس امید پر شبہات کے بادل لے آئے ہیں۔
پیٹ ہیگسیتھ نے سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نہ صرف مذاکرات کو “نتیجہ خیز” قرار دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سفارتکاری ناکام ہوئی تو فوجی آپشن میز پر موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقف کو مزید سخت بناتے ہوئے بدھ کے روز اعلان کیا کہ “اگر ایران پیچھے نہ ہٹا تو اسرائیل کے ساتھ مل کر کارروائی بالکل ممکن ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نہ صرف اس میں شامل ہوگا بلکہ ممکنہ طور پر قیادت بھی کرے گا۔ ان الفاظ نے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ایران کی جانب سے البتہ مکمل خاموشی نہیں بلکہ ایک بار پھر جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کی گئی ہے۔
تہران کا مؤقف واضح ہے کہ “ہم پرامن جوہری توانائی چاہتے ہیں، نہ کہ تباہی کے ہتھیار۔” مگر دوسری جانب مغربی انٹیلیجنس رپورٹس یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے صرف چند ہفتوں کے فاصلے پر ہے۔
یاد رہے کہ یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرچکا ہے جب صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی تھی۔ اس فیصلے نے نہ صرف عالمی اعتماد کو مجروح کیا بلکہ ایران کو دوبارہ اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کا بہانہ بھی فراہم کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟ یا سفارت کاری کی باریک لکیر پر توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا