معروف مورخ اور محقق پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شر نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے مشہور قدیم شہر موہنجو دڑو کی اب تک صرف آٹھ فیصد کھدائی ہوئی ہے، جبکہ اس کے بیشتر حصے اب بھی زمین کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔ وہ جامعہ سندھ، جامشورو کے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں ایک لیکچر دے رہے تھے، جس کا انعقاد ایم ایچ پنہور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شر نے کہا کہ مزید کھدائی سے نئی اور اہم دریافتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ انہوں نے موہنجو دڑو کو صرف آثارِ قدیمہ کا مقام نہیں بلکہ علم، دانش اور ثقافتی عظمت کا خزانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مقام قدیم سندھ کی ذہانت، تہذیب اور ترقی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ موہنجو دڑو کی زبان نہ تو دراوڑی ہے اور نہ ہی کسی مشہور رسم الخط سے تعلق رکھتی ہے بلکہ یہ ایک منفرد اور اب تک ناقابلِ فہم زبان ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس مقام کی تاریخی اہمیت کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس کے تعلیمی، فنی اور سماجی نظام کو دنیا کے سامنے لایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر شر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سائنس اور تحقیق کے لیے فنڈز میں اضافہ کرے اور موہنجو دڑو کو ایک عالمی تعلیمی مرکز کے طور پر اجاگر کرے۔
اسی تقریب میں، جامعہ سندھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھومبتی نے کہا کہ سندھ کی تاریخ، خاص طور پر تقسیم کے بعد، تحقیق کی کمی کا شکار ہے۔ انہوں نے سندھی زبان کے تحفظ کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے اور انگریزی و سندھی دونوں زبانوں میں ڈگریوں کے اجرا کا اعلان بھی کیا۔
اس لیکچر میں کئی مشہور سکالرز اور محققین نے شرکت کی، جن میں ڈاکٹر بھائی خان شر، ڈاکٹر فیاض لطیف چانڈیو، ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ، اور دیگر شامل تھے۔