یورپی یونین نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے امید کی نئی کرن بن کر سامنے آنے والا یہ اقدام 1.6 ارب یورو (تقریباً 1.8 ارب ڈالر) کی ایک زبردست مالی پیکج کی صورت میں آیا ہے، جو اگلے تین سالوں تک فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کیا جائے گا۔
یورپی کمشنر برائے مشرقی بحیرہ روم ‘دوبراوکا شوئیکا’ نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ یہ امداد محض مالی تعاون نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی میں شفافیت، اصلاحات اور بہتر طرز حکمرانی کی ایک نئی بنیاد بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی خود کو بہتر بنائے تاکہ وہ نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ اسرائیل کے لیے بھی ایک بااعتماد اور مضبوط شراکت دار کے طور پر ابھرے۔”
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ کے مابین ایک اعلیٰ سطحی سیاسی ڈائیلاگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ یہ اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں منعقد ہو گا، جو فلسطین-یورپی تعلقات میں ایک تاریخی لمحہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ کے لیے تیار رہنا، امریکا کی ایران کو دھمکی
اس مالی پیکج کے تحت 620 ملین یورو براہ راست فلسطینی اتھارٹی کی بہتری اور اصلاحات کے لیے مختص ہوں گے، 576 ملین یورو مغربی کنارے اور غزہ میں “بحالی و استحکام” کے لیے دیے جائیں گے جبکہ یورپی انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے 400 ملین یورو کے قرضے بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ یورپی یونین فلسطینیوں کی سب سے بڑی مالی مدد فراہم کرنے والی طاقت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ستم ختم ہو، تو فلسطینی اتھارٹی نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ کی بھی بااختیار انتظامیہ بنے۔
تاہم، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت مسلسل اس خواب کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے نہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتی ہے بلکہ غزہ کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے خلاف ہے۔
اس پس منظر میں یورپی یونین کا یہ فیصلہ ایک جرات مندانہ قدم ہے۔
لازمی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا