وزارت صحت کی ایک رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ 2025-26 کے آئندہ بجٹ میں بیکری، کنفیکشنری، اور دیگر الٹرا پروسیسڈ اشیاء پر 20 فیصد ہیلتھ ٹیکس عائد کیا جائے۔
کچھ ایسی اشیاء جن پر پہلے سے 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) موجود ہے، ان پر یہ ٹیکس 40 فیصد تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے، اور 2028-29 تک اسے بتدریج 50 فیصد تک لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ان اقدامات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے صحت کے شعبے میں بہتری لائی جا سکتی ہے، اور غیر صحت بخش اشیاء کی کھپت میں بھی کمی ممکن ہو گی۔ حکومت ان مصنوعات پر ٹیکس لاگو کر کے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے، یعنی عوامی صحت میں بہتری اور صحت کے پروگراموں کے لیے اضافی ریونیو۔
یہ تجاویز وزارت صحت کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ساتھ بھی شیئر کی گئی ہیں، تاکہ انہیں آئندہ بجٹ میں شامل کیا جا سکے۔ ان مصنوعات میں گیس والے مشروبات، میٹھے جوس، اسکواش، شربت، کنفیکشنری آئٹمز، آئس کریم، چاکلیٹ، بیکری مصنوعات، چپس، جیم، ساسیجز، گوشت سے بنی مصنوعات، اور دیگر صنعتی طور پر تیار شدہ خوراک شامل ہیں۔ ان پر ٹیکس کی شرح 20 سے بڑھا کر 40، اور پھر 50 فیصد تک کی جائے گی۔

رپورٹ میں بعض نئی مصنوعات کو بھی ایف ای ڈی کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جیسے وہ مصنوعات جن میں دودھ کے قدرتی اجزاء شامل ہوں مگر ان میں چینی یا مٹھاس ملائی گئی ہو۔ ساتھ ہی یہ تجویز دی گئی ہے کہ غیر میٹھے پیک شدہ دودھ، سادہ پانی، اور تازہ پھل و سبزیاں زیرو ریٹڈ کی جائیں تاکہ صحت مند متبادل کو فروغ دیا جا سکے۔
اس پالیسی کی بنیاد بین الاقوامی رجحانات اور عالمی بینک کی سفارشات پر رکھی گئی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹیکسیشن کو صحت عامہ کی بہتری کے ایک مؤثر آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
الٹرا پروسیسڈ مصنوعات میں چینی، چکنائی، نمک، اور مختلف کیمیکل شامل ہوتے ہیں جو موٹاپے، ذیابیطس، دل کے امراض اور دیگر مسائل کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستان میں 18 سے 40 سال کی عمر کے افراد ان مصنوعات کے سب سے بڑے صارف ہیں، اس لیے ٹیکس کا اثر براہ راست اس عمر گروپ پر ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق، ان اقدامات سے طبی اخراجات میں کمی، صحت مند طرز زندگی، اور قومی معیشت پر مثبت اثرات متوقع ہیں۔