سپریم کورٹ میں جناح ہاؤس حملہ کیس کے مرکزی ملزم علی رضا کی ضمانت کی درخواست نے نیا رخ اختیار کر لیا، جب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “اگر میڈیکل بنیاد پر ضمانت دے دی گئی تو پھر تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا۔”
تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ہر نوجوان کی بیماری کو بنیاد بنا کر اگر ضمانت دی جائے تو یہ انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہوگا۔
علی رضا کے وکیل، سمیر کھوسہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کی عمر صرف 20 سال ہے وہ شدید بیمار ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کا آڈیو یا ویڈیو ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
اس پر پنجاب کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ علی رضا کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ڈنڈے سے اہلکاروں کو زخمی کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ علی رضا کی موجودگی موقع پر ثابت ہے اور وہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے میں شریک رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’نوجوان ہونا کوئی لائسنس نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے لو۔ اگر علی رضا واقعی بیمار ہے تو پراسیکیوٹر جنرل خود اس معاملے پر غور کریں لیکن عدالت کو قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دینا ہوگا۔‘‘
عدالت نے مزید سماعت بدھ تک ملتوی کر دی لیکن اس کیس نے ایک بار پھر 9 مئی 2023 کے ہولناک واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے ترک کمپنیوں سے معاہدے
9مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی شروع ہوئے تھے۔ لاہور میں مظاہرین نے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کا دفتر جلایا بلکہ جناح ہاؤس، جو کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے، اس پر بھی حملہ کر دیا تھا۔
سرکاری و نجی املاک کو آگ لگائی گئی، درجنوں گاڑیاں جل گئیں اور جی ایچ کیو راولپنڈی کا گیٹ بھی توڑ دیا گیا تھا۔ ان ہنگاموں میں 8 افراد جان سے گئے اور 290 زخمی ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعد ازاں کارروائی کرتے ہوئے ملک بھر سے 1900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، اور فوجی عدالتوں نے کارروائی کرتے ہوئے 25 مجرمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں دیں جن میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل تھے۔
دوسری جانب علی رضا کی بیماری، نوجوانی اور ویڈیو شواہد کی غیرموجودگی کو ایک طرف رکھیں، لیکن ریاست کا مؤقف یہ ہے کہ ایسے افراد کو رعایت دینا باقی قیدیوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
یہ کیس اب صرف ایک ضمانت کا نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کے عدالتی اور سیاسی نظام کا ٹیسٹ کیس بنتا جا رہا ہے۔
بدھ کے روز ہونے والی آئندہ سماعت میں کیا فیصلہ ہوگا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔