Follw Us on:

وہ تین نہیں چار تھے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

وہ تین نہیں چار یار تھے،چار روشن ستارے تھے۔ جن کی عمریں قیام پاکستان کے وقت، ۱۵ ۱۵ سال تھیں۔جنہوں نے  ۱۹۵۰ کے عشرے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے سید ابوالاعلی مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہو کر دین اسلام کی ترویج اور اس کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر نافذ کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنایا، اسلامی جمیعت طلبہ  کو منظم کرنے اور طلبہ کو اسلام کے پرچم تلے لا کر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی ایک بڑی قوت بنانے میں مرکزی کردار اداکیا اور تعلیم اور جمیعت سے فراغت کے بعد بھی اس مشن کو زندگی بھر جاری رکھا اور اس کا سارا وقت دین کی سربلندی کےلئے وقف کئے رکھا۔انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے نوجوان نسل کو بڑا متاثر کیا اور ان کی زندگیاں بدل دیں اور دنیا بھر میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔

 وہ چار یار پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، خرم جاہ مراد اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری تھے۔ اتفاق دیکھئے کہ ان چار یاروں کا پیدائش کا سال بھی ایک ہی ۱۹۳۲ ہے۔ان میں سب سے بڑے  پروفیسر خورشید احمد تھے جن کی پیدائش ۲۳ مارچ ۱۹۳۲کی ہے جب کہ ڈاکٹر اسرار احمد ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ میں، خرم جاہ مراد۔ ۳ نومبر ۱۹۳۲ میں اور ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری ۲۷ دسمبر ۱۹۳۲میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر اسرار پروفیسر خورشید سے ۳۴ دن، خرم جاہ مراد ۷ ماہ ۱۰ دن اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ۹ ماہ اور ۴ دن چھوٹے تھے۔پروفیسر خورشید نے ان میں سب سے زیادہ عمر پائی انتقال کے وقت ان کی عمر ۹۳ سال اور ۲۰ دن تھی۔جب کہ ڈاکٹر اسرار ۱۲ دن کم ۷۸ برس کی عمر میں ۴۱ اپریل ۲۰۱۰ کو اپنے خالق سے جا ملے۔اس کو بھی حسن اتفاق ہی کہیں گے کہ پروفیسر خورشید اور ڈاکٹر اسرار کی پیدائش اور وفات کا مہینہ اپریل ہی ہے۔خرم جاہ مراد اس دنیائے فانی میں ۶۴ سال ایک ماہ اور ۱۶ دن کی بھرپور زندگی گزار۱۹ دسمبر ۱۹۹۶ کو خالق  حقیقی سے جا ملے اور ان چاروں میں سب سے چھوٹے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ۸۳ سال ۸ ماہ اور تین دن کی عالمانہ اور داعیانہ زندگی جی کر ۲۴ اپریل ۲۰۱۶ کو اپنے رب عظیم کے حضور پیش ہو گئے۔ان چاروں کے خاندان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان چاروں کو اردو، انگریزی، عربی اور فارسی اور مقامی زبانوں میں لکھنے اور تقریر کرنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہوا تھا۔ 

ہم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ان چاروں سے ہمارے مراسم رہے، سب سے زیادہ پروفیسر خورشید سے رابطہ اور تعلق رہا جس کا دورانیہ ۱۹۶۴ سے آخر تک ۶۱ سال ہے، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سے ان کے سعودی عرب سے واپسی کے بعد سے ان کے انتقال تک ۳۲/۳۳ سال، خرم جاہ مراد سے ان کی قید سے واپس آنے کے بعد چند برس اور سب سے کم ڈاکٹر اسرار سے تعلق رہا۔ہم نے ان چاروں کے نظریات اور سوچ کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی۔اس لحاظ سے یہ چاروں روشن ستارے ہمارے محسن ہیں۔ 

یپروفیسر خورشید کا خاندان دہلی سے،خرم جاہ مراد کا خاندان بھوپال سے اور ڈاکٹر ظفر احمد انصاری کا خاندان بھی دہلی سے کراچی پہنچا جب کہ ڈاکٹر اسرار کا خاندان ضلع حصار اور ہریانہ سے لاہور میں آ کر آباد ہوا۔ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک ادارہ، ایک انسٹی ٹیوٹ، ایک تھنک ٹینک اور ایک انجمن تھا جن میں سے ہر ایک کے کام کو دیکھ کر تعجب اور حیرت ہوتی ہے  کہ ایک شخص تنہا اتنا بڑا کام بھی کرسکتا ہے۔

یہ چاروں فکر مودودی کے اصلی وارث، جانشین اور ان کے مشن کے علم بردار تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان چاروں کو علم، تحریر اور تقریر کی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ ان چاروں کو اردو، انگریزی، عربی اور فارسی اور مقامی زبانوں میں لکھنے اور تقریر کرنے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی کتابوں، اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے دنیا بھر میں متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ورثہ اور صدقہ جاریہ کے طور چھوڑا ہے۔ پروفیسر خورشید نے تین تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز ( IPS ) اسلام آباد، اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر یو کے اور اسلامک مشن کینیا نیروبی، ۱۰۰ سے زیادہ کتب، پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن کی حیثیت میں ۲۲ سال کے دوران کی گئی تقریروں کا مجموعہ اور مختلف یونیورسٹیوں کے قیام میں ان کی رہنمائی اور درجنوں یونیورسٹیوں میں ہزاروں شاگردوں کو چھوڑا ہے۔

انہوں نے ۱۹۹۶ میں خرم جاہ مراد کی وفات کے بعد مولانا مودودی کے ماہ نامہ ترجمان القرآن کے مدیر کی حیثیت سے ان کے مشن کو جاری رکھا اور اس کے اشارات لکھتے رہے۔جس میں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ملکی اور عالمی حالات کا تجزیہ پیش کرتے تھے۔وہ اپنے انتقال تک اس کے مدیر رہے اور ان کے آخری اشارات فروری ۲۰۲۵ کے ترجمان القرآن میں شائع ہوئے یعنی اپنے انتقال سے ڈیڑھ ماہ پہلے تک وہ پر مغز ، معلوماتی اور علمی اشارات اپنی یاد داشت سے زبانی نقل کرایا کرتے تھے کیوں کہ انہوں نے کافی عرصے سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی اور جسمانی کمزوری کی وجہ اپنے ہاتھ سے لکھنا ترک کر دیا تھا۔ 

ڈاکٹر اسرار احمد اسلامی جمیعت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے بعد جماعت اسلامی میں تھوڑا عرصہ ہی رہے لیکن جب تک رہے اپنی پوری صلاحیتیں اس کے فروغ اور ترویج کےلئے صرف کرتے رہے۔ لیکن طریقہ کار میں اختلاف رائے کی وجہ سے ۱۹۵۷ میں مولانا امین احسن اصلاحی اور دوسروں کے ساتھ جماعت اسلامی سے اپنی راہیں جداکرلیں لیکن وہ مولانا مودودی کی اقامت دین کی فکر کے ساتھ نا صرف جڑے رہے بلکہ انہوں نے اپنی تحریک کا مشن اور مرکز و محور قرآن کی اسی تعبیر اقامت دین ہی کو بنایا اور خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کی صورت میں قرآن کے اسکالرز کی ایک بے لوث جماعت اور جگہ جگہ قرآنی حلقے اور مراکز قائم کر دیئے جو ان کے مشن کو ملک اور بیرون ملک جاری رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے بھی درجنوں کتب اور ہزاروں لیکچرز اور قرآن کی آڈیو اور ویڈیو آسان تفسیر اپنے چاہنے والوں کے استفادے کےلئے چھوڑے ہیں۔یو ٹیوب ان کی شعلہ بیان تقریروں اور بیان القرآن کی صورت میں تفسیر سے بھرا پڑا ہے۔

خرم جاہ مراد کو اللہ نے تقریر اور تحریر دونوں پر ایسا عبور عطا کیا تھا کہ ان کی تقریر سننے اور ان کی تحریریں پڑھنے والا ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ان کا گھرانہ تحریک اسلامی کا مرکز اور مثالی گھرانہ تھاجس کی تربیت اور تعلیم کا سرچشمہ ان کی والدہ تھیں جو قائد اعظم کے معتمد ساتھی اور اسٹیٹ بنک کے بانی گورنر زاہد حسین کی حقیقی بہن تھیں۔ خرم جاہ مراد نے بھی اپنی اولاد ، درجنوں کتابیں اور اپنی سینکڑوں خطبات اپنے ورثے اور صدقہ جاریہ کے طور پر چھوڑے ہیں۔ان کا سب سے بڑا کام ڈھاکا میں قیام کے دوران جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو منظم کرنا تھا جس کے مثبت اثرات آج تک محسوس کئے جاتے ہیں۔اس وقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اسلامی جمیعت طلبہ ایک بڑی قوت ہیں۔جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

وہ سقوط ڈھاکا کے بعد سیاسی قیدی بنے اور عرصے تک بھارت کی جیلوں میں زندگی بسر کی۔انہوں نے اپنی زندگی کی روداد اپنی مشہور کتاب “ لمحات  “ میں بڑے متاثر کن انداز میں بیان کی ہے کہ آپ اسے پڑھنا شروع کریں تو اسے ختم کئے بغیر چھوڑنا مشکل ہو جائے گا۔قید سے رہائی کے بعد وہ پاکستان آئے اور لاہور منتقل ہو گئے اور جماعت کے نائب امیر کے طور پر کام کرنے لگے۔فروری ۱۹۹۴ سے انہوں نے ماہنامہ ترجمان القرآن کے انتظامی مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اپنا وقت اس کو اسی طرح کا ایک باوقار علمی ماہ نامہ پیش کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے اور اس کی اشاعت کو وسعت فراہم کی جس طرح وہ مولانا مودودی کے دور میان تھا۔وہ اپنے انتقال تک اس کے مدیر رہے، اس کے اشارات لکھتے رہے اور اس کو بہترین دیدہ زیب انداز مرتب کرتے رہے۔ 

ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری عالمی شہرت یافتہ اسکالر اور پروفیسر تھے۔جنہوں نے میکگل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا تھا اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایا تھا۔وہ بھی درجنوں کتب کے مصنف تھے۔ان کا ایک یاد گار کام اسلامی جمیعت طلبہ کے ابتدائی دستوری خاکے کی تدوین تھی۔اس وقت جمیعت کا جو دستور ہے اس کا بنیادی خاکہ ان ہی کا مرتب کردہ ہے۔ وہ ناظم اعلیٰ تو نہیں رہے لیکن اس کی شوری کے رکن اور پروفیسر خورشیداحمد، خرم جاہ مراد اور ڈاکٹر اسرار کے معتمد ساتھی اور ایک طاقتور بازو تھے۔ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ مولانا مودودی کی مشہور عالم تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہے۔ جس کو اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر اور جماعت اسلامی انڈیا نے شائع کیا ہے۔ان کا یہ کام رہتی دنیا تک لوگوں کو قرآن کی روشنی فراہم کرتا رہے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس