Follw Us on:

بہتر معیشت یا امریکی دباؤ: پاکستان کا امریکا سے تیل درآمد کرنے پر سوچ بچار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

پاکستان پہلی بار امریکا سے خام تیل درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے، اور اس تجویز کے پیچھے صرف توانائی کی ضرورت نہیں بلکہ ایک بڑی معاشی حکمتِ عملی ہے۔ تجارتی عدم توازن کو کم کرنا اور امریکی ٹیرف سے بچاؤ، اس فیصلے کے اہم مقاصد میں شامل ہیں۔ حکومتی ذرائع اور ریفائنری حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس پر غور کیا جا رہا ہے۔

حکومت پاکستان کو اس وقت امریکا کی جانب سے 29 فیصد درآمدی ٹیرف کا سامنا ہے، جس کی وجہ تقریباً 3 بلین ڈالر کا تجارتی سرپلس ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی تجارتی نظام کو ہلا دینے والے اقدامات، خصوصاً درآمدی محصولات میں اضافے نے بہت سے ممالک کو اپنی تجارتی حکمت عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان بھی انہی میں شامل ہے، جو اب امریکی خام تیل خرید کر واشنگٹن کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات میں توازن لانا چاہتا ہے۔

وزیر اعظم کو اس تجویز کی منظوری دینی ہے، لیکن اس سے پہلے حکومتی سطح پر تیزی سے اس پر کام ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ تجویز اُن مصنوعات میں سے ہے جن پر امریکا جانے والے وفد کو بات چیت کرنی ہے۔ حکومت پاکستان یہ دیکھ رہی ہے کہ اس درآمد کے لیے کیا مواقع اور ڈھانچہ میسر ہو سکتا ہے۔

اگر اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے، تو پاکستان کی موجودہ تیل اور ریفائنڈ مصنوعات کی درآمدات، جو تقریباً 1 بلین ڈالر سالانہ بنتی ہیں، کا ایک حصہ امریکی مارکیٹ سے حاصل کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان مشرق وسطیٰ، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یومیہ 137,000 بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے۔ Kpler کے مطابق، 2024 میں تیل کی مجموعی درآمدات 5.1 بلین ڈالر رہیں۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سعودی عرب نے فروری میں پاکستان کو 1.2 بلین ڈالر کی تیل فنانسنگ سہولت ایک سال کے لیے بڑھائی ہے۔ سعودی فنڈ برائے ترقی 2019 سے اب تک پاکستان کو تقریباً 6.7 بلین ڈالر کی فنانسنگ مہیا کر چکا ہے۔ اس پس منظر میں امریکا سے تیل کی درآمد نہ صرف ایک متبادل ذریعہ ہو گی بلکہ پاکستان کی تجارتی حکمتِ عملی میں تنوع لانے کی بھی کوشش ہوگی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے اقتصادی ماہر سلمان حیدر کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ صرف توانائی کی خریداری نہیں بلکہ ایک جیو اکنامک حکمت عملی ہے۔ پاکستان کو اگر امریکی ٹیرف سے بچنا ہے تو تجارت میں توازن لانا ناگزیر ہے، اور امریکی خام تیل کی خریداری ایک بہتر قدم ہو سکتا ہے۔”

اس اقدام پر مختلف آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔ کراچی کے ایک ریفائنری ایگزیکٹو، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی، کا کہنا تھا، “امریکی خام تیل کی خریداری کے لیے ہماری ریفائنریز کو کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی کیونکہ ہم اب تک مشرق وسطیٰ کے ہلکے گریڈ کے تیل پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اگر یہ تجارتی دباؤ کم کرتا ہے تو ان تبدیلیوں کی لاگت برداشت کی جا سکتی ہے۔”

ادھر اسلام آباد میں توانائی سے وابستہ امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی فہد ملک کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ پاکستان کے امریکی تجارتی تعلقات میں ایک نیا باب کھول سکتا ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ صرف سیاسی اشاروں پر نہیں، بلکہ مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق قدم اٹھانا ہوگا۔”

پاکستان کے لیے یہ موقع نہ صرف ٹیرف سے بچاؤ بلکہ توانائی کی سپلائی کو متنوع بنانے کے لیے بھی اہم ہو سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے درآمد کنندگان بھی اسی سمت میں سوچ رہے ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں امریکی LNG منصوبے میں 26 فیصد حصہ خرید کر اس رجحان کو مزید تقویت دی ہے، جبکہ جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان الاسکا کے LNG منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔

یہ تمام ممالک امریکی توانائی ذرائع سے جڑ کر نہ صرف اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں بلکہ تجارتی سطح پر امریکہ کو خوش رکھنا بھی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی وقت ہے کہ وہ روایتی ذرائع سے آگے نکل کر اپنی توانائی اور تجارتی حکمتِ عملی کو نئے خطوط پر استوار کرے۔

ایک سینئر حکومتی افسر کا کہنا ہے، “یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی درآمدی ڈھانچے، ریفائنری صلاحیتوں، اور عالمی منڈی کی قیمتوں کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف امریکی تعلقات میں بہتری آئے گی بلکہ ہمارے تجارتی کھاتوں پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔”

فی الوقت وزارت پٹرولیم نے اس تجویز پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن اعلیٰ حکومتی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ تجویز زیر غور ہے اور امریکہ جانے والے وفد کی ایجنڈا فہرست میں شامل ہے۔ آنے والے ہفتوں میں اگر یہ معاہدہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو پاکستان کی توانائی پالیسی میں یہ ایک نمایاں تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان اس اقدام کے ساتھ ساتھ دیگر امریکی مصنوعات کی درآمد پر بھی غور کرے۔ لیکن فی الحال توجہ خام تیل پر مرکوز ہے، کیونکہ یہ فوری طور پر نہ صرف تجارت میں توازن لا سکتا ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں ایک نیا باب بھی کھول سکتا ہے۔

پاکستان کی معیشت اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، اور بڑھتی ہوئی درآمدی لاگت شامل ہے۔ اگر امریکی خام تیل کی درآمد سے ان مسائل میں کچھ حد تک کمی آتی ہے تو یہ فیصلہ قابلِ ستائش ہوگا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تجویز صرف فائلوں تک محدود رہتی ہے یا عملی اقدام میں بدلتی ہے۔ اگر حکومت صحیح فیصلے اور بروقت اقدامات کرے، تو یہ فیصلہ مستقبل میں پاکستان کی توانائی خود مختاری اور تجارتی سفارتکاری کا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس