Follw Us on:

اردو زبان مذہب نہیں، تہذیب کی شناخت ہے، انڈین سپریم کورٹ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

انڈیا سپریم کورٹ نے ایک ایسے مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے جس میں مہاراشٹرا کے ضلع اکولا کے ایک چھوٹے سے قصبے پاتور میں میونسپل کونسل کی عمارت پر اردو زبان کے سائن بورڈ نے ایک بڑا قانونی اور تہذیبی سوال کھڑا کر دیا، کیا زبان مذہب سے منسلک ہو سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا جواب تھا “نہیں، ہرگز نہیں۔”

یہ فیصلہ، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی دو رکنی بینچ نے سنایا، ایک سابق کونسلر، ورشتائی سنجے باگاڑے نے اردو زبان کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف مراٹھی زبان کا استعمال ہی قانونی ہے۔

ان کا حوالہ مہاراشٹرا لوکل اتھارٹیز (آفیشل لینگویجز) ایکٹ 2022 تھا لیکن عدالت نے ان کے مؤقف کو “غلط فہمی پر مبنی” قرار دیا۔

فیصلے میں جس انداز میں اردو زبان کا دفاع کیا گیا وہ صرف ایک قانونی مؤقف نہیں بلکہ تہذیبی شعور کی بیداری تھی۔

جسٹس دھولیا نے لکھا کہ “زبان مذہب نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی مذہب کی نمائندہ۔ زبان قوم، علاقے اور عوام سے جڑی ہوتی ہے۔”

عدالت نے کہا کہ اردو اور مراٹھی دونوں زبانیں انڈین آئین کے تحت برابر حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو کا استعمال عدالت کے مطابق، صرف مؤثر ابلاغ کے لیے تھا جو کہ قانوناً درست اور جائز ہے۔

لیکن یہ محض ایک قانونی فتح نہیں تھی، یہ ایک تہذیبی حقیقت کی تصدیق تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس کا میڈیا کریک ڈاؤن، ٹرمپ کی کوریج سے عالمی نیوز وائرز کو باہر نکال دیا گیا

عدالت نے یاد دلایا کہ اردو زبان اسی سرزمین پر پیدا ہوئی ہے۔ یہ گنگا-جمنیٰ تہذیب کی علامت ہے جو ہندو مسلم یکجہتی، محبت اور ثقافتی ہم آہنگی کی عکاس ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اردو زبان کو نوآبادیاتی دور میں مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا جیسا کہ ہندی کو ہندوؤں سے، حالانکہ دونوں زبانیں ہندوستان کی مشترکہ ثقافت سے جنم لینے والی بہنیں ہیں۔

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ “یہ تقسیم ایک گمراہ کن بیانیہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ باگاڑے کی درخواست پہلے 2020 میں میونسپل کونسل نے رد کر دی تھی، جب یہ بتایا گیا کہ اردو 1956 سے سرکاری سطح پر استعمال میں ہے اور مقامی عوام اس سے بخوبی واقف ہیں۔ بعد میں 2021 میں بمبئی ہائی کورٹ نے بھی ان کی درخواست خارج کر دی لیکن وہ باز نہ آئے اور معاملہ سپریم کورٹ تک لے گئے۔

عدالت نے ملک میں لسانی تنوع کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں 122 بڑی زبانیں اور 234 مادری زبانیں رائج ہیں جن میں اردو چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

اردو تقریباً تمام ریاستوں میں کسی نہ کسی حد تک سمجھی اور بولی جاتی ہے، سوائے شمال مشرقی علاقوں کے۔

فیصلے کے آخر میں عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ زبان کا بنیادی مقصد رابطہ ہوتا ہے تفریق نہیں۔ “اگر میونسپل کونسل نے اردو کا استعمال کیا تو اس کا مقصد عوام سے بہتر رابطہ تھا اور قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔”

یہ فیصلہ نہ صرف قانونی طور پر اردو زبان کے حق میں آیا بلکہ ایک واضح پیغام بھی دے گیا کہ زبان کو مذہب کی زنجیروں میں جکڑنا، انسانیت کے خلاف ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی معیشت تباہ، قدرتی آفات کا کہرام، کیا اس سال بھی بابا وانگا کی پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے؟

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس