پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں فلسطینی علاقوں سے متعلق حالیہ قرارداد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری افواہوں اور الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے واضح کیا کہ “اسرائیلی ترجیحات کو ایڈجسٹ کرنے” سے متعلق تمام دعوے بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔
ترجمان نے سوشل میڈیا پوسٹس کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ پاکستان نے قرارداد میں سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف شقیں نکالنے کی سفارش کی۔ ان کے مطابق، یہ دعوے جھوٹی میڈیا رپورٹس پر مبنی ہیں جو قرارداد کے عمل اور اس کے نتائج کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔
ان پوسٹس میں امریکی یہودی کانگریس کے اس بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد میں اسرائیل کے خلاف سخت زبان کو نرم کرنے میں کردار ادا کیا۔ تاہم ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی اجتماعی منظوری سے پیش کی گئی، جس میں فلسطینی وفد کی رضامندی اور او آئی سی کی توثیق بنیادی شرط ہوتی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کی گئی قرارداد فلسطینی موقف پر مبنی ہے۔ کوئی بھی ترمیم یک طرفہ نہیں کی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے لیے فلسطینی وفد اور OIC کا اتفاق ضروری تھا۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی کسی کثیرالطرفہ فورم میں اس سے کوئی براہ راست رابطہ رکھتا ہے۔ قرارداد میں صرف انسانی حقوق کی بنیاد پر غور کے لیے سفارشات کی گئیں، اور مزید فیصلے جنرل اسمبلی کو سونپ دیے گئے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں فلسطینی کاز کے لیے ہمیشہ غیر متزلزل حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔ نیویارک اور جنیوا میں پاکستانی سفارتی وفود نے او آئی سی کے طے کردہ موقف کے مطابق ہی تمام قراردادوں پر کام کیا۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور ان کے حقوق کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو ہے، اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ وضاحت ان تمام سوشل میڈیا تبصروں اور الزامات کا جواب ہے جو پاکستان کے کردار پر سوال اٹھا رہے تھے۔ دفتر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط تشہیر یا گمراہ کن بیانیہ پاکستان کی فلسطین پالیسی کو متاثر نہیں کر سکتا۔