حکومت کے بار بار اعلانات اور وعدوں کے باوجود پاکستان میں بجلی سستی نہیں ہو رہی جب کہ ملک کے دیہی علاقوں میں 20 بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گزشتہ گرمیوں میں مہنگے بجلی بلوں کی وجہ سے ہونے والی خودکشیاں اور حالیہ دنوں میں بجلی نہ ہونے پر طویل احتجاج ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہیں۔
سردیوں کے موسم میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے اس کی وجہ سے بجلی کا ماہانہ بل قدرے کم رہتا اور بلند آہنگ احتجاج کی وجہ نہیں بنتا۔ البتہ پاکستان کے بالائی علاقوں کے مکینوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزانہ 20 بیس گھنٹے بجلی میسر نہیں رہتی۔
پاکستان میں بجلی کی موجودہ قیمت
وزارت توانائی کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2025 میں بجلی کی متوقع فی یونٹ قیمت 32 سے 64 روپے ہے۔ سب سے کم 32 روپے صفر سے 100 یونٹ اور زیادہ 64.06 روپے 700 سے زائد یونٹ خرچ کرنے والوں کے لیے ہے۔
سرکاری ڈیٹا کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 50.17 روپے جب کہ ہر یونٹ پر تقریبا 14 روپے کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں پر نو مختلف اقسام کے ٹیکس اور چارجز عائد کیے جاتے ہیں۔
مہنگی بجلی پر ملک بھر میں احتجاج، غم وغصہ کے اظہار کا سلسلہ خودکشیوں اور قتل جیسے افسوسناک واقعات تک جا پہنچا تھا۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے معاملے پر احتجاج کیا جس کا دائرہ بڑھا تو اسلام آباد، راولپنڈی میں 14 روزہ دھرنا دیا گیا۔
جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کیپیسیٹی پیمنٹس پاکستانیوں کو سستی بجلی ملنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کے لیے بھی اربوں روپے چند اداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ متعدد آئی پی پیز حکومت یا فوج کی ملکیت ہیں، ان سے کیے گئے معاہدوں کو فورا ختم کر کے بجلی سستی کی جانی چاہیے۔ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جس کے بعد وفاقی وزرا نے باقاعدہ ٹائم لائن کا اعلان کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ بجلی سستی کی جائے گی۔
اس معاملے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے بیچ میں چند آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تو بتایا کہ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بڑی بچت ہو گی۔ ان اقدامات کے باوجود مہنگی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی ہے۔
وفاقی وزیربرائے توانائی اویس خان لغاری نے ‘خؤاہش’ ظاہر کرتے ہوئے دعوی کر رکھا ہے کہ چند ہفتوں میں ‘خطے کی سستی ترین بجلی’ مہیا کریں گے۔
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں عام صارف کو متاثر ہی نہیں کر رہیں بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ بھی روکے ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس میں بجلی کی قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں بجلی کا سستا نہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کل 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہماری ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر سکتا ہے کیوں کہ اس سے زیادہ ہمارا ٹرانسمیشن نظام بجلی ترسیل نہیں کرتا۔

میں بننے والی کل بجلی کا 22.8فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ حیران کن طورپر پہ 40 سال بعد بھی ہمارا بجلی کا نظام درست نہ ہو سکا اور آج بھی 16فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔انیس سو چوراسی میں
گو کہ پاکستانی صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں لیکن قیمت وہ 45 ہزار میگاواٹ کی ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں سب سے پہلے حکومتوں کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ 1994 میں پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو بجلی بنانے اور حکومت کو فروحت کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا جسے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا نام دیا گیا۔
آئی پی پیز اور حکومت کے مابین معاہدے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چاہے آئی پی پیز کی بنائی ہوئی بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت مکمل قیمت ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں 90 نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو 24،958 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں،جبکہ ”11 سے 14ہزار ”میگاواٹ بجلی آبی ذرائع سے بنتی ہے۔ تین ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔
پاکستانی یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ کیپسٹی رقوم کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت 48 روپے میں سے 24 روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو جاتی ہے۔ حیران کن طور پر کچھ نجی بجلی گھر ایک گھنٹے جتنی بھی بجلی نہیں بناتے لیکن وہ کپیسٹی رقم کے طور پہ حکومت سے اربوں روپے حاصل کرتے ہیں۔

بجلی کے معاملہ پر ہونے والے احتجاج کے بعد جب حکومت نے بجلی سستی کرنے پر اتفاق کیا تو فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کو طے کرنے والے افراد میں ایک جماعت اسلامی کے نائب امیر سید فراست علی شاہ بھی تھے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے ملکی حالات خراب ہیں جس کی وجہ حکومتی اداروں کا ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسی اپنانا ہے۔ مختصر مدتی پالیسی کو اپنانے سے مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا اور پھر کسی میں دو روپے کم کردیے تو کسی میں تین روپے بڑھا دیے جیسے ریلیف دیے جاتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کےگزشتہ اسلام آباد دھرنے میں حکومت نے مذاکرات کرکے کہ معاہدہ طے کیا تھا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کرکے عوام کو ریلیف دیاجائے گا۔ اس بات کو تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک بجلی سستی نہیں ہوئی۔
اسی معاہدہ کے تحت حکومت نے آئی پی پیز اور کپیسٹی رقم کے معاملے کی چھان بین کرنے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی۔ جس نے حکومت کو مشورہ دیا کہ معاہدوں میں کیپسٹی پیمنٹ کو ختم کیا جائے۔ معاہدے اس بنیاد پہ کیے جائیں کہ جتنی بجلی بنائیں گے اتنی رقم ملے گی۔ ٹاسک فورس کے مطابق اس پالیسی سے بجلی کا خرچ کم ہو جائے گا۔
سابق نگران مشیرِ خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا پاکستان میٹرز سے گفتگومیں کہنا تھاکہ پاکستان میں بجلی کے سستا ہونے کےدور دور تک کہیں آثار نہیں ہیں جس کی وجہ بجلی کا مہنگے داموں بننا ہے۔
“حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔آئی پی پیز سےمہنگے داموں پر بجلی بنانے کے معاہدے کیے گئے ہیں اور بےجا لگائے گئے ٹیکسز کی وجہ سے بجلی بلوں میں ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔”

سلمان شاہ کے مطابق “ہم نے ایک ایسے ملک میں جہاں ایکسپورٹ کچھ خاص نہیں ہوتا وہاں بجلی امپورٹ کردی ہے ۔”
بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور موجودہ برسوں میں سود کی شرح بلند ہونا ہے۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ آئی پی پیز سے زیادہ بڑے مسائل ٹرانسمیشن لائنز میں خرابی اور ٹیکسوں میں بے دریغ اضافہ ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کے پاس ڈیم تھے جو بجلی کی ضروریات کے لیے کافی تھے جس کی وجہ سے دنیا میں سب سے سستی بجلی پاکستان میں ہوتی تھی اورموجودہ وقت میں سب سے مہنگی پاکستان میں مل رہی ہے۔ ماضی میں ڈیمز بنانے کے لیے واپڈا کی بنیاد رکھی گئی اور ڈیمز سے بننے والی بجلی نہایت سستی تھی۔
“بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا مگر ڈیم میں رکاوٹوں کے سبب امپورٹڈ ایندھن سے بجلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایندھن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے لیے انتہائی ناقص معاہدے کیےگئے اور واپڈا کو پرائیویٹ کمپنیز کو سونپ دیاگیا۔ معاہدوں میں جو بجلی سستی دے گا اس سے لی جائے گی تک کا نہیں کہا گیا۔”
ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ معاہدے لمبی مدت کے ہیں اوردو چار روز میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ 90 کی دہائی میں ہونے والے پرانے معاہدوں کی مدت کو بڑھایا جارہا ہے اور 2013 میں ہونے والے معاہدوں کی طویل مدت باقی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے ابھی عوام کو ریلیف ملنے کے کوئی خدوخال نظر نہیں آرہے۔
مہنگی بجلی سے بچنے کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ ملک میں سولر پاور سے بننے والی بجلی سستی ہے، اس کے لیے اقدامات کئے جائیں تاکہ رات کو بھی میسر رہے اور پاکستان کو پاور مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی سیکرٹری جماعت اسلامی فراست شاہ کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی پر بظاہر حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی اور چاہتی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے مگر حکومت کی ڈور کہیں اور بندھی ہوئی ہے اور وہ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ مسائل کی بنیادی وجہ مسئلے کا مستقل حل تلاش نہ کرنا ہے۔ جب حکومت کسی مسئلے میں پھنستی ہے تو چھوٹا سا معاہدہ کر لیتی ہے۔ بجلی سستی نہ کرپانے کے پیچھے بھی آئی پی پیز کے حوالے سے آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے، حکومت کو واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ اگر بجلی کی قیمت میں کمی نہ کی گئی تو ایک بار پھر ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا جس سے حالات سنگین رخ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
رہنما جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کو بڑے پیمانے پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، سرمایہ کاروں کی بجائے عام لوگوں کو ریلیف دینا حکومت کا اولین فرض ہونا چاہیے۔
اگر حکومت بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنائے، آئی پی پیز سے بہتر معاہدے کرے اور بجلی چوری جیسے جرائم کا سدِباب کرے تو بجلی سستی ہو سکتی ہے۔