ایک طرف یوکرین میں جنگ کی آگ بجھ نہیں رہی تو دوسری جانب ایران کے جوہری پروگرام پر بڑھتی کشیدگی۔ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو اہم سکیورٹی مشیروں، سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، یورپی دارالحکومت پیرس پہنچ چکے ہیں۔
جمعرات کو ان کی ملاقات فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے طے ہے جس میں روس-یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے ممکنہ راستوں پر گفتگو ہوگی، جب کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی یا اس کے متبادل امکانات پر بھی بات چیت ہوگی۔
مارکو روبیو، جو اس وقت ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اہم ترین چہروں میں شامل ہیں، وہ فرانس کے وزیر خارجہ ژاں-نوئل بارو سے بھی علیحدہ ملاقات کریں گے، جس میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔
اس کے برعکس، اسٹیو وٹکوف پیرس کے بعد اٹلی کا رخ کریں گے جہاں وہ ہفتہ کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے روم میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
ان دونوں کے درمیان گزشتہ ہفتے عمان میں 45 منٹ کی ملاقات ہوئی تھی، جسے فریقین نے “مثبت” قرار دیا، تاہم تسلیم کیا گیا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنا ابھی بہت دور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ کا ہارورڈ یونیورسٹی پر دباؤ، غیر ملکی طلباء کے داخلے پر پابندی کی دھمکی دے دی
دوسری جانب ایران کے حوالے سے ٹرمپ کا لہجہ اب اور سخت ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے پیر کو واضح الفاظ میں کہا کہ “اگر ایران نے جوہری معاہدے پر پیش رفت نہ کی تو ہم ان کے جوہری ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔“
اس اعلان نے یورپی حلقوں میں تشویش پیدا کردی ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ عمان میں ہونے والی ابتدائی بات چیت کی خبر ٹرمپ نے ازخود دی، اور اس سے قبل کسی یورپی حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
حالیہ دنوں روسی میزائل حملے میں یوکرینی شہر سومی کو نشانہ بنایا گیا جس پر پولش وزیر خارجہ رادوسلاو سیکورسکی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی حکومت سمجھ سکے گی کہ پوتن ان کے حسن نیت کا مذاق اڑا رہا ہے۔“
ٹرمپ کے قریبی ذرائع کے مطابق منگل کو وائٹ ہاؤس میں ان کے اعلیٰ سکیورٹی مشیروں کے ساتھ ایران کے معاملے پر ایک خفیہ اجلاس بھی ہوا۔
اس تمام صورتحال کو آج پیرس میں ہونے والی ملاقات کو ایک فیصلہ کن موڑ تصور کیا جا رہا ہے، ایک ایسا موقع جہاں امریکہ اور یورپ مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ “میری کوشش ہے کہ یہ سب رک جائے، تاکہ ہم جانیں بچا سکیں۔”
مزید پڑھیں: غزہ کی صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی: مسلم ممالک کا کیا کردار ہونا چاہیے؟