190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس میں عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو سات برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جمعہ کو راولپنڈی کی اڈیالا جیل میں احتساب عدالت کے سنائے گئے فیصلے میں عمران خان کو 10 اور بشری بی بی کو پانچ لاکھ جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں دونوں کو باالترتیب چھ اور تین ماہ کی مزید سزا بھگتنا ہو گی۔
احغٹساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کے سنائے گئے فیصلہ کے مطابق وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لے لے۔
ایک برس تک جاری رہنے والے ٹرائل کے بعد عدالت نے دسمبر کے مہینے میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ آج سے قبل فیصلہ سنانے کے لیے تین تاریخوں کا اعلان کیا گیا تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
جمعہ کو جس وقت فیصلہ سنایا گیا اس وقت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ فیصلہ کا اعلان ہونے کے بعد عدالتی عملہ نے بشری بی بی کو تحویل میں لے لیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سزا سنائی گئی ہے۔
فیصلہ سناتے وقت پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر، عمران خان کی بہنیں، ان کی قانونی ٹیم سمیت متعدد افراد عدالت میں موجود تھے۔
ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟
القادر ٹرسٹ کیس پاکستان کے سب سے سنسنی خیز اسکینڈلز میں سے ایک بن کر سامنے آیا ہے۔ الزام ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے کچھ قریبی ساتھیوں نے 2019 میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) سے پاکستانی حکومت کو منتقل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 50 ارب روپے) کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے غلط طریقے سے ایڈجسٹ کیا۔ یہ رقم ایک طاقتور پراپرٹی ٹائیکون سے ضبط کی گئی تھی
اس کے علاوہ برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ یہ رقم پاکستان کو واپس کی جانی چاہیے تھی کیونکہ معاملہ ‘سول نوعیت کا تھا’ اور کسی مجرمانہ کارروائی کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ القادر ٹرسٹ کے قیام کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ اس ٹرسٹ کو دراصل ایک پردے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ این سی اے سے حاصل کی گئی غیر قانونی رقم کو قانونی طور پر چھپایا جا سکے۔
دسمبر 2023 میں نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو (نیب) نے اس کیس کا ریفرنس دائر کیا اور عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات عائد کیے، ان پر الزام تھا کہ 3 دسمبر 2019 کو برطانوی ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کو چھپایا گیا اور رقم کو ریاستی خزانے میں منتقل کرنے کے بجائے ٹرسٹ میں ڈال دیا گیا۔
اس کیس میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جیسے ذلفی بخاری، بابراعوان، بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرحت گوگی کے نام بھی سامنے آئے۔
ذلفی بخاری کے بارے میں یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کابینہ کے معاہدے کے کچھ ہی ماہ بعد 458 کنال اراضی حاصل کی ہے جسے بعد میں ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیا گیا جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔

اس اسکینڈل کے منظرنامے نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب 9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں فوجی اور دیگر ریاستی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ تاہم عمران خان کو چند دنوں بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی اور سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
یہ کیس سیاسی کشمکش میں مزید شدت اختیار کرتا گیا جب متعدد اہم گواہوں نے بیان دیا۔ ان گواہوں میں سابق وزراء پرویز خٹک، زبیدہ جلال، سابق پرنسپل سیکریٹری اعزام خان اور القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل آفیسر شامل تھےجنہوں نے اس اسکینڈل کی گہرائیوں سے پردہ اٹھایا۔
چند مہینوں میں یہ کیس اور پیچیدہ ہوگیا جب نیب نے چھ ملزمان کو مفرور قرار دے دیا جن میں ذلفی بخاری، فرحت گوگی، مرزا شہزاد اکبر اور زیااللہ مصطفیٰ نسیم شامل ہیں۔ ان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے تلاش شروع ہو گئی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران متعدد ججوں کی تبدیلی ہوئی تھی جن میں جج محمد بشیر، جج ناصر جاوید رانا، جج محمد علی وڑائچ اور پھر جج رانا شامل تھے اور ہر جج نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے 16 گواہوں کی فہرست پیش کی تھی لیکن ان کی گواہی کو طلب کرنے کی درخواست مسترد کر دی گئی جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔