’ہم محنت کرتے کرتے تھک گئے مگر حالات نہیں بدل رہے، اب حالت یہ ہے کہ قرضوں میں ڈوب چکے ہیں، فصل ہمارے لیے امید ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی کریں گے مگر حالت یہ ہے کہ بچے بوڑھے ہورہے ہیں‘ آنکھوں میں آنسو لیے خانیوال کا اللہ دتہ گندم بھی کاٹ رہا تھا اور اپنی کہانی بھی سنارہا تھا ۔ میں نے پوچھا کسانوں کے لیے مریم سرکار بہت کچھ کررہی ہے۔ ٹریکٹرز دے رہی ہے، کسان کارڈ جاری کررہی ہے ۔ آپ کو کیا کچھ نہیں ملا؟۔ بولے ’میں غریب ہوں، میری اتنی پہنچ کہاں؟‘۔
یہ حالت صرف خانیوال کے اللہ دتہ کی نہیں ۔ بہاولنگر کے ارسلان اور چولستان کے عاصم، اللہ ڈیوایا بھی یہی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ اوکاڑہ کے فرید اور ٹوبہ کے رمضان کا بھی یہی رونا ہے۔
کپاس کم ترین نرخوں پر خریدی گئی تو اب گندم کے ریٹ کا کچھ پتا نہیں، آلو، گنا سب اتنی قیمت پر خریدے گئے کہ کسانوں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوئے۔
ہم نے دیکھا کہ جب بھی کوئی فصل تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو کسانوں کو بہت جتن کرنے پڑتے ہیں، گرمی ہو یا سردی موسم کی پروا کیے بغیر کاشکاراپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ٹھٹھرتی سردیوں میں جب پالیسی ساز گرم کمبلوں میں میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں توایک کسان کپاس کی فصل کو پانی دے رہا ہوتا ہے۔ جب کپاس خریدنے کی باری آتی ہے تو اس کو ایسی قیمت ملتی ہے کہ ہوش اڑ جاتے ہیں ۔
اسی طرح گنّا جب شوگر ملز کو فروخت کیا جاتا ہے تو قیمت نچلی سطح تک پہنچ جاتی ہے اورجب کرشنگ سیزن ختم ہوتا ہے تو چینی مہنگی کردی جاتی ہے جیسا کہ آج کل روز قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ شوگر ملیں خریدے گئے گنے کی کئی ماہ تک ادائیگی ہی نہیں کرتیں، یہی حال گندم اور دیگر فصلوں کا ہے۔ کبھی کبھی تو قدرت کی طرف سے آزمائش کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ پکی پکائی فصل کو یا تو سیلاب بہا لے جاتا ہے یا پھر ژالہ باری کام دکھا جاتی ہے۔
دسمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی کے ساتھ اتنی بے حسی کیوں؟ کسان جب اناج اور سبزی لے کرشہر میں آتا ہے تو پولیس کے سپاہی سے لے کر آڑھتی تک سب لوٹتے ہیں۔ اناج کی قیمتیں تو اپنی جگہ جب ایک مویشی پال کسان سارا سال جانور پالتا ہے اور سال میں ایک دن یعنی عید قربان پر انہیں بیچنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس طرح کچھ خرچہ نکل آئے۔ اُس وقت بھی سارے ٹی وی چینل اور اخبارات آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اس سال جانور بہت مہنگے ہوگئے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کسان سارا سال قربان ہوتا ہے ایک دن باقی لوگ قربانی دے دیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟
اپنی تنخواہوں میں 20, 15 فی صد اضافہ تو سرکاری ملازمین، سیاستدانوں کو اچھا لگتا ہے لیکن کسان کی فصل کی قیمت بڑھ جائے تو کسی کو گوارا نہیں۔ ہر طرف اتنا ہنگامہ کیا جاتا ہے کہ کہ اتنی زیادتی! اب ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ جیسے پہلے تو کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
مریم سرکار سے میری عرضی ہے کہ کبھی کھیت میں کام کرتے کسان کے پاس جائیے، اس کے ساتھ ٹک ٹاک بنائیے۔ کسان آج بھی کھیت میں ایک بنیان اور لنگی پہنے ننگے پاؤں کھڑا ہے اُس کی اولادیں وہیں کھیتوں میں رل رہی ہیں جب کہ اس کی کپاس کے سوداگر درجنوں ٹیکسٹائل ملز لگا چکے ہیں۔
بڑی اچھی بات ہے کہ پنجاب بھر میں سڑکوں کے جال بچھائے جارہے ہیں، ریلوے کے نئے ٹریک لگائے جارہے ہیں،چین کے تعاون سے شہر خوبصورت بنائے جارہے ہیں، دیہات سے مریم صاحبہ کی تصویر والی وردی پہنے خاکروب بھی اچھے لگتے ہیں، سب کچھ کریں، پل بنائیں، بڑی بڑی انڈسٹریاں لگائیں، یہ سب کام کریں۔ لیکن ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کسان ہے جو آپ کی سرد مہری سے مررہا ہے۔ پنجاب کا کسان مررہا ہے، مریم صاحبہ بچاسکتی ہیں تو بچا لیجئے۔