April 19, 2025 10:42 pm

English / Urdu

Follw Us on:

فیکٹ چیک: ‘مہنگے پیٹرول سے سڑک کی تعمیر’ حکومت پیٹرول کی مد میں پاکستانیوں سے 15 روز میں کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے؟

شاہد عباسی
شاہد عباسی
pakistani pay whooping Rs.86 billion tax on petrol in 15 days

چند روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس رقم سے سندھ اور بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی روز حکومت نے مہنگائی سے پریشان پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے کوٹے پر صدر بننے والے آصف زرداری کے آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد لیوی میں بھی بھاری اضافہ کر دیا۔
پیٹرولیم سیکٹر کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق فی لیٹر پیٹرول 122 روپے میں میسر ہے۔ پاکستان میں پہنچ کر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، ایکسچینج ریٹ کا ایک روپیہ، لیوی فی لیٹر 78 روپے، ان لینڈ فریٹ ایکوزیشن مارجن فی لیٹر تقریبا 7 روپے عائد ہے۔ اس طرح فی لیٹر کل ٹیکس 108 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔
ڈیلر اور ڈسٹری بیوشن مارجن ڈال کر پاکستانیوں کو 122 روپے فی لیٹر کا پیٹرول 254 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں جنوری 2025 کے دوران 1.38 ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات استعمال کی گئیں۔ حالیہ ایام میں اس مقدار میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم اگر انہی اعداد کو دیکھا جائے تو پاکستانی 15 روز میں 7 کروڑ 95 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔
دیگر مدات کو نظر انداز کر کے صرف پیٹرولیم لیوی کا حساب کیا جائے تو پاکستانی 15 روز میں حکومت کو 63 ارب 61 کروڑ روپے کی بھاری رقم ادا کریں گے۔ تمام ٹیکسز شمار کیے جائیں تو پاکستانی 15 روز میں سرکار کو 85 ارب 94 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کریں گے۔
ان اعدادوشمار کی روشنی میں معاشی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستانی پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں تو ان پر مزید معاشی دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
پاکستان میں تنخواہ دار 38.5 فیصد، کاروباری فرد 50 فیصد جب کہ بینکس اپنی آمدن کا 53 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 39 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
ٹیکس کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ خریداری پر عملا 25 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس، سڑک پر سفر کریں تو ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھاری ٹول ٹیکس، ٹیلیفون وانٹرنیٹ پر ایڈوانس ٹیکس تک عائد ہے جو ہر فرد نے لازما ادا کرنا ہوتا ہے۔
معیشت کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان شہباز رانا کے مطابق ان بھاری ٹیکسوں کا مقصد ترقیاتی و دیگر اخراجات کے لیے وسائل مہیا کرنا ہوتا ہے۔
‘ایسے میں بھاری بھرکم ٹیکس کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں بنتی۔’

پاکستان میٹرز کے ایڈیٹر شاہد عباسی بطور صحافی 2008 سے ڈیجیٹل نیوز میڈیا سے منسلک ہیں۔ اس سے قبل متعدد پاکستانی اور غیرملکی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔

شاہد عباسی

شاہد عباسی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس