چند روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس رقم سے سندھ اور بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی روز حکومت نے مہنگائی سے پریشان پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے کوٹے پر صدر بننے والے آصف زرداری کے آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد لیوی میں بھی بھاری اضافہ کر دیا۔
پیٹرولیم سیکٹر کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق فی لیٹر پیٹرول 122 روپے میں میسر ہے۔ پاکستان میں پہنچ کر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، ایکسچینج ریٹ کا ایک روپیہ، لیوی فی لیٹر 78 روپے، ان لینڈ فریٹ ایکوزیشن مارجن فی لیٹر تقریبا 7 روپے عائد ہے۔ اس طرح فی لیٹر کل ٹیکس 108 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔
ڈیلر اور ڈسٹری بیوشن مارجن ڈال کر پاکستانیوں کو 122 روپے فی لیٹر کا پیٹرول 254 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں جنوری 2025 کے دوران 1.38 ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات استعمال کی گئیں۔ حالیہ ایام میں اس مقدار میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم اگر انہی اعداد کو دیکھا جائے تو پاکستانی 15 روز میں 7 کروڑ 95 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔
دیگر مدات کو نظر انداز کر کے صرف پیٹرولیم لیوی کا حساب کیا جائے تو پاکستانی 15 روز میں حکومت کو 63 ارب 61 کروڑ روپے کی بھاری رقم ادا کریں گے۔ تمام ٹیکسز شمار کیے جائیں تو پاکستانی 15 روز میں سرکار کو 85 ارب 94 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کریں گے۔
ان اعدادوشمار کی روشنی میں معاشی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستانی پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں تو ان پر مزید معاشی دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
پاکستان میں تنخواہ دار 38.5 فیصد، کاروباری فرد 50 فیصد جب کہ بینکس اپنی آمدن کا 53 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 39 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
ٹیکس کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ خریداری پر عملا 25 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس، سڑک پر سفر کریں تو ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھاری ٹول ٹیکس، ٹیلیفون وانٹرنیٹ پر ایڈوانس ٹیکس تک عائد ہے جو ہر فرد نے لازما ادا کرنا ہوتا ہے۔
معیشت کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان شہباز رانا کے مطابق ان بھاری ٹیکسوں کا مقصد ترقیاتی و دیگر اخراجات کے لیے وسائل مہیا کرنا ہوتا ہے۔
‘ایسے میں بھاری بھرکم ٹیکس کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں بنتی۔’
