امریکا کی جانب سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا امکان مسترد کیے جانے کے بعد روس نے اطمینان کا سانس لیا ہے اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ کریملن کی دیرینہ خواہش پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امریکی مؤقف کو ’اطمینان بخش‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے واشنگٹن سے مختلف سطحوں پر یہ سنا ہے کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت خارج از امکان ہے۔ ظاہر ہ، یہ بات ہمارے موقف سے مطابقت رکھتی ہے اور ہمیں اس پر اطمینان ہے۔“
روس کے لیے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت ایک سرخ لکیر سمجھی جاتی رہی ہے اور صدر ولادیمیر پوتن نے اسی خطرے کو جواز بنا کر 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سب سے بڑے تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مغربی دنیا اسے روس کا سامراجی اقدام قرار دیتی ہے لیکن ماسکو اسے ایک تاریخی موقع گردانتا ہے ایسا موقع جب وہ مغرب کی “توسیع پسندانہ پالیسیوں” کے خلاف کھڑا ہوا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ وہ روس-یوکرین جنگ ختم کروا سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اُن کا یہ بیان کہ “یوکرین کی نیٹو میں شمولیت اب زیر غور نہیں” ماسکو کے لیے ایک واضح اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین میں نسل کشی: روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے ہیں، روسی قونصل جنرل
ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی سوشل میڈیا ایپ “ٹروتھ سوشل” پر پوسٹ کی، اس میں انہوں نے کہا کہ “روس اور یوکرین کو اس ہفتے معاہدہ کرنا ہوگا۔ دونوں بعد میں امریکا کے ساتھ بڑا کاروبار کریں گے اور دولت کمائیں گے“۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “کیا ٹرمپ واقعی امن چاہتے ہیں، یا پھر ایک ایسا معاہدہ جس سے امریکا کو معاشی فائدہ ہو اور روس کو جغرافیائی؟
پوٹن کے ترجمان پیسکوف نے ٹرمپ کے ان بیانات پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، مگر ساتھ ہی اشارہ دے دیا کہ ماسکو کسی بھی “پرامن حل” کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم امریکی فریق سے رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ یہ کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی۔ تاہم، امن معاہدے کی باتیں عوامی سطح پر نہیں کی جا سکتیں بلکہ مکمل رازداری میں کی جانی چاہئیں۔“
ضرور پڑھیں: پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو آگے بڑھائیں گے، شیخ عبداللہ بن زید
اس دوران مالیاتی منڈیوں میں بھی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ روسی روبل نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں چھلانگ لگائی ہے اور جون 2024 کے بعد پہلی بار 80 روبل فی ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ مارکیٹ “امن کی امید” کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
جہاں ایک جانب ٹرمپ امن کی امید دلا رہے ہیں، وہیں رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ روس امن کی قیمت پر زمین چھوڑنے کو تیار نہیں۔
کریملن کا مؤقف واضح ہے کہ“یوکرین کو نیٹو سے دستبردار ہونا ہوگا اور روس کے زیرقبضہ علاقوں سے اپنی افواج واپس بلانی ہوں گی۔“
یہ مطالبات یوکرین کے لیے ناقابل قبول ہیں اور موجودہ حکومت کسی بھی ایسے معاہدے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی جو اس کی خودمختاری کو کمزور کرے۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ “کیا واشنگٹن کا مؤقف بدلنا کسی بڑے معاہدے کی پیش بندی ہے؟”