Follw Us on:

ایک لاکھ وفاقی ملازمین کی نوکریوں کو خطرہ کیوں ہے؟ 

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ایک لاکھ سرکاری ملازمین کی نوکریوں کو خطرہ

پاکستان کے وفاقی اداروں میں گزشتہ کئی برسوں سے خدمات انجام دینے والے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی نوکریاں اچانک خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

ان میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران بھی شامل ہیں جنہیں سابقہ حکومت کی پالیسی کے تحت ریگولرائز کیا گیا تھا۔

اب ایک حالیہ ہدایت نامے کے تحت ان تمام افسران کے کیسز دوبارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

یہ پیش رفت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی 19 مارچ 2025 کو جاری کردہ یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے سامنے آئی جس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی تشریح کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تمام ریگولرائز شدہ ملازمین کو دوبارہ FPSC کے امتحانات اور انٹرویوز سے گزرنا ہوگا۔ تاہم، اس فیصلے کے دائرہ کار اور اطلاق پر قانونی و عوامی سطح پر شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کئی وزارتوں اور اداروں میں دو دہائیوں سے خدمات انجام دینے والے ان ملازمین کو باقاعدہ طریقہ کار یعنی تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے ذریعے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یہ زمین صرف ہماری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے، مریم نواز

بعد ازاں وفاقی کابینہ کی منظوری سے ان کی ملازمتوں کو مستقل حیثیت دی گئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم نے بھی منظوری دی تھی۔

اب جبکہ یہ ملازمین اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہیں اور ان میں سے اکثر کی عمریں 45 سے 55 سال کے درمیان ہیں، FPSC کے دوبارہ امتحانات دینا ان کے لیے کسی کربناک خواب سے کم نہیں۔ متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل ان کی سروس ختم کرنے کے مترادف ہے۔

وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔

اس بیان نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا حکومت کے اندر بھی اس حساس مسئلے پر مکمل ہم آہنگی موجود ہے یا نہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے حالیہ اجلاس میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا، جہاں کئی اراکینِ اسمبلی نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات اداروں میں بےچینی اور بداعتمادی کو جنم دیں گے۔

کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ “یہ صرف ملازمتوں کا مسئلہ نہیں، یہ ریاستی اعتماد کا مسئلہ ہے۔ ایک ملازم جو 25 سال سے ادارے کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے اور وہ کیسے دوبارہ وہی امتحان دے گا جو اُس نے ماضی میں پاس کیا تھا؟”

متاثرہ ملازمین میں ہزاروں ماہر ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس، سرجنز، انجینئرز، پروفیسرز، لیکچررز، نرسز، اور دیگر تکنیکی و پیشہ ور افراد شامل ہیں۔

ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے کورونا وبا، دہشتگردی اور دیگر قومی بحرانوں کے دوران اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ملک کی خدمت کی۔

لازمی پڑھیں: میرپورخاص کی پولیس لائنز میں دھماکہ، اسلحہ و گولہ بارود سمیت حساس ہتھیار تباہ

ایک سینئر ڈاکٹر نے نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “کیا ہم نے صرف اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ اب ہمیں نوکری سے فارغ کر کے دوبارہ امتحان میں بٹھا دیا جائے؟ یہ تو انصاف کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے اثرات کے ساتھ ان اداروں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔

مزید یہ کہ ہر ادارے کی نوعیت، کام، اور بھرتی کے طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں اس لیے اس فیصلے کو “ان ریم” یعنی تمام اداروں پر یکساں لاگو کرنا قانونی طور پر بھی قابل اعتراض ہے۔

ملازمین نے وزیراعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور ان ہزاروں خاندانوں کو بےیقینی کے بھنور سے نکالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانیاں اور زندگی کے بہترین سال ریاست کی خدمت میں گزار دیے اور اب ان کی زندگی کا سکون چھیننا سراسر ناانصافی ہے۔

یہ معاملہ اب صرف سرکاری دفتروں کی فائلوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک قومی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے۔

مزید پڑھیں: کینال منصوبہ کے خلاف عدالتوں میں ہڑتال: ’لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے‘

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس