ڈھاکہ کی گلیاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں مگر واشنگٹن میں رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر کی محفل گرم تھی۔ ان کی نظر صرف ایک “خفیہ پل” پر تھی، اور وہ جنرل یحییٰ خان تھے۔
یہ 1971 کا سال تھا، جب امریکا کو چین تک رسائی چاہیے تھی اور پاکستان اس کا “استعمال ہونے والا راستہ” بنا۔
امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق، نکسن نے صاف کہا تھا کہ “یحییٰ ہمارا آدمی ہے، بنگالیوں کو نظرانداز کرو، ہمیں چین چاہیے۔”
اور پھر وہ ہوا جس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ امریکی ہتھیاروں سے لیس انڈیا نے مکتی باہنی کو تربیت دے کر پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔
16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس دن کسنجر نے نکسن کو فون پر مبارکباد دی اور کہا کہ “جناب صدر، آپ نے مغربی پاکستان بچا لیا۔”
لیکن کیا واقعی بچایا؟ یا صرف “استعمال کر کے پھینک دیا”؟
1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی تو امریکا نے پاکستان کو ایک بار پھر اپنا “اتحادی” بنایا۔
سی آئی اے نے پاکستانی آئی ایس آئی کے ذریعے مجاہدین کو فنڈز اور ہتھیار دیے۔ مگر جب سوویت یونین ٹوٹا تو امریکا نے پاکستان کو “ٹھوکر مار کر” چھوڑ دیا۔ اور پاکستان کو اس جنگ کا خمیازہ ہیروئن، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی سے بھگتنا پڑا۔
اس کے بعد 2001 میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو صدر بش نے پاکستان سے کہا “یا ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے خیمے میں۔”
اس کے بعد جنرل مشرف نے امریکا کا ساتھ دیا مگر بدلے میں کیا ملا؟ ڈرون حملے، عزت کی پامالی اور الزامات۔
منہاج یونیورسٹی سے بین القوامی امور کے ماہر کے پروفیسر ڈاکٹر حسن فروق مشوانی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” 9/11 کے بعد ڈرون حملوں سے ہماری خودمختاری کو کچل دیا۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم بار بار ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔”
پاکستان کے 70,000 سے زائد افراد دہشت گردی کی جنگ میں مارے گئے مگر امریکا کی زبان پر ہمیشہ یہی رہا “ڈو مور۔”
ڈاکٹر مشوانی نے مزید کہا کہ ” جب تک امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، ہم ‘اہم اتحادی’ تھے۔ جب کام ختم ہوا، ہمیں دہشت گردوں کا حامی قرار دے دیا گیا۔ کیا کبھی امریکا نے ہمارے شہیدوں کا بدلہ لیا؟”
2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو “دہشت گردوں کی پناہ گاہ” کہا۔ 2020 میں انہوں نے طالبان کے ساتھ ڈیل کی، افغانستان چھوڑا اور پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔
اس کے علاوہ جب کشمیر میں انڈیا نے آرٹیکل 370 ختم کیا، تو امریکا نے آنکھیں بند کر لیں۔
ٹرمپ اور مودی کے گلے ملنے والے مناظر دیکھے گئے، جبکہ کشمیریوں کے خون سے زمین سرخ ہوتی رہی۔
پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی طلبہ عائشہ ملک نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” جب انڈیا نے کشمیر کی حیثیت ختم کی تب تو امریکا خاموش رہا لیکن جب ہم نے چین کے ساتھ CPEC بنایا تو ہمیں ‘قرضوں کا شکار’ کہا گیا، کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں؟”
اب 2025 میں ٹرمپ دوبارہ صدر بن چکے ہیں۔ کیا پاکستان ایک بار پھر “امریکی شطرنج کی بساط پر مہرہ” بنے گا؟
عائشہ ملک نے مزید کہا کہ ” امریکا کا فارمولا سادہ سا ہے، جب تک ہمیں فوجی اڈوں اور انٹیلی جنس کی ضرورت ہوگی تب تک ہم ‘دوست’ ہیں۔ جب نہیں تو ہم ‘دھوکے باز’۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم چین، روس اور ترکی جیسے حقیقی دوستوں پر توجہ دیں”۔
1971 میں امریکا نے پاکستان کو چین تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا اور 1980 میں افغان جنگ میں “ہیرو” بنا کر پھر تنہا چھوڑ دیا۔
اس کے علاوہ 2001 سے 2021 تک دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا، مگر معاوضہ نہیں ملا۔
عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ” امریکا کبھی پاکستان کا حقیقی دوست نہیں تھا اور اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی بھی خود بنانی ہوگی نا کہ امرکا طے کرے گا”۔ پاکستان نے امریکا کی ہر جنگ لڑی، ہر قیمت چکائی مگر بدلے میں ملا “پابندیاں، تنقید، اور تنہائی”۔ کیا اب وقت نہیں آیا کہ پاکستان اپنی پالیسی “امریکا سے آزاد” کرے؟