پاکستان کے جنوب مشرقی صحرا چولستان میں ایک نایاب اور خوبصورت جنگلی جانور کیراکیل (Caracal) کی دوبارہ موجودگی نے ماحولیاتی ماہرین، وائلڈ لائف حکام اور مقامی افراد کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ صحرائے چولستان میں یہ نایاب بلی پہلی بار دیکھی گئی ، حالیہ مشاہدہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ علاقہ اب بھی جنگلی حیات کے لیے سازگار ہے بشرطیکہ اسے تحفظ دیا جائے۔
کیراکیل کون ہے؟
کیراکیل ایک درمیانے سائز کا گوشت خور جنگلی جانور ہے، جو اپنے نوکیلے کانوں، تیز دھار آنکھوں اور سبک رفتار جسم کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ اس کا رنگ عام طور پر زرد مائل بھورا ہوتا ہے، اور اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے کانوں پر سیاہ بال ہوتے ہیں جو اسے دوسرے جنگلی بلیوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ یہ جانور نہ صرف زمین پر بلکہ درختوں پر بھی مہارت سے شکار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہےیہ جانور نہایت تیز رفتار اور پھرتیلا ہے۔ اس کی چھلانگ کی صلاحیت 3 میٹر تک ہوتی ہے، اور یہ 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ کیراکیل عام طور پر رات کے وقت متحرک ہوتا ہے، اور اپنے شکار جیسے کہ چوہے، خرگوش، چھوٹے ہرن اور پرندے کو خاموشی سے قابو میں لاتا ہے۔ اس کی یہ خوبیاں اسے قدرتی ماحولیاتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں اس سال پولیو کا دوسرا کیس، 11 سالہ بچے میں علامات ظاہر
کیراکیل بنیادی طور پر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے خشک اور نیم بنجر علاقوں میں پایا جاتا ہے، اور پاکستان میں اس کی موجودگی کبھی بھی کثیر تعداد میں نہیں رہی۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ جانور تقریباً ناپید ہو چکا تھا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں غیر قانونی شکار، خوراک اور مسکن کی قلت، انسانی آبادکاری کا پھیلاؤ اور ماحولیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ مقامی لوگ اکثر اسے اپنے مویشیوں کے لیے خطرہ سمجھ کر مار دیتے ہیں، جبکہ کچھ اسے غیر قانونی طور پر پالتو بنانے یا کھال کی تجارت کے لیے شکار کرتے ہیں۔

حالیہ مشاہدہ کیسے ممکن ہوا؟
حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو نے جنگلی حیات کے ماہرین کو متوجہ کیا، جس میں ایک کیراکیل چولستان کے علاقے میں ایک ویران ٹیلے پر دھوپ سینکتے دیکھا گیا۔ اس ویڈیو کی تصدیق وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے کی، اور مقامی رضاکاروں کی مدد سے علاقے میں سروے کا آغاز بھی کیا گیا ہے تاکہ مزید مشاہدات کو ریکارڈ کیا جا سکے ماہرین کے مطابق، کیراکیل کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ چولستان کا ماحولیاتی نظام ابھی مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ یہ جانور اپنے ماحول میں چوہے، خرگوش، چھوٹے ہرن اور پرندوں کا شکار کرتا ہے، اور یوں قدرتی توازن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رینجر آفیسر مجاہد کلیم نے بتایا کہ صحرائے چولستان میں چوکی ایریا کے قریب caracal نامی سیاہ گؤش بلی شکار کی غرض سے نایاب چنکارا ہرنوں کے جھنڈ کے قریب دیکھی گئی۔ وائلڈ لائف آفیسر کا کہنا ہے صحرائے چولستان میں پنجاب کے علاقے میں نایاب بلی پہلی بار دیکھی گئی جس پر انہوں نے اسکی ویڈیو ریکارڈ کی آفیسر کے مطابق نایاب سیاہ گؤش بلی اپنے قدرتی مسکن میں تھی لمبے کانوں اور درمیانے قد والی اس سیاہ گؤش بلی کا شمار دنیا بھر میں خوبصورت اور نایاب بلیوں میں ہوتا ہے۔ یہ نایاب بلی پرندوں چوہوں اور خرگوش سمیت ہرنوں کا شکار کرتی ہے جو 9 سے 10 فٹ تک اڑ کر شکار کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ نایاب بلی ایک وقت میں 1 سے 6 بچے دیتی ہے نایاب سیاہ گؤش عمومی طور پر میڈل ایسٹ، افریقہ اور مختلف ایشیائی ممالک میں پائی جاتی ہے، وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جنگی حیات ہمارا قومی اثاثہ ہے جنکو بچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کی کوششیں:
پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے کیراکیل کے تحفظ کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، جبکہ چولستان کے کچھ حصوں کو “کنزرویشن زونز” قرار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔چولستان کے چرواہوں اور مقامی رہائشیوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ اگر وہ اس جانور کو دیکھیں تو فوراً اطلاع دیں، اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم اس نایاب خزانے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھ سکیں یا اسے بھی دیگر معدوم جانوروں کی فہرست میں شامل کر بیٹھیں چولستان میں کیراکیل کی واپسی نہ صرف ایک ماحولیاتی خبر ہے بلکہ ایک امید بھی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر قدرت کو موقع دیا جائے تو وہ دوبارہ سانس لے سکتی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات اور غیر سرکاری اداروں نے اس نایاب جانور کے تحفظ کے لیے آگاہی مہم کا آغاز کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ مقامی افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس کی اطلاع فوری دیں اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ چولستان کا صحرا اگرچہ ویران دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے خاموش منظرنامے میں قدرت کی خوبصورت گواہیاں چھپی ہوئی ہیں, جن میں کیراکیل بھی ایک نایاب خزانہ ہے، جسے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔