April 24, 2025 11:54 am

English / Urdu

Follw Us on:

قوم سے ہجوم بن گئے: ’پاکستان کا خواب ایسا تو نہ تھا‘

زین اختر
زین اختر

پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ یہ نظریہ انصاف، مساوات اور انسانی وقار کے اصولوں پر مبنی تھا، جہاں ہر شہری کو مساوی مواقع، مذہبی آزادی، تعلیم اور روزگار میسر ہونا تھا۔

قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر بانیانِ پاکستان نے جس ریاست کا خواب دیکھا تھا، وہ ایک ترقی یافتہ، خود مختار اور باوقار ریاست کا تصور تھا۔مگر آج جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس خواب سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ ہم ایک قوم بننے کی بجائے رفتہ رفتہ ہجوم میں بدل گئے ہیں، جہاں ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آ چکا ہے۔

ہر شخص میں کے چکر میں گم ہے، بھائی بھائی کا نہیں رہا۔ ہر جگہ افراتفری کا بازار گرم ہے ، جس کو موقع ملتا ہے وہ دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔

بانیانِ پاکستان نے ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں قانون کی بالا دستی ہو، ہر فرد کو اس کی قابلیت کے مطابق ترقی کے مواقع ملیں اور عدل و انصاف ہر طبقے کے لیے یکساں ہو۔ بدقسمتی سے آج کا پاکستان ان مقاصد سے میل نہیں کھاتا۔ آج عام شہری بے یقینی، خوف اور مایوسی کا شکار ہے۔ جو ریاست مساوات اور عدل کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، وہ اب معاشرتی ناانصافی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشمکش، بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور ادارہ جاتی تضادات نے ملک کو ایسی صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے جہاں عوام کے لیے کوئی واضح سمت نظر نہیں آتی۔ تمام سیاسی جماعتیں انتشار کو ہوا دینے پر تلی ہیں اور ان پارٹیوں کے پیروکار بینائی کا چشمہ جیبوں میں ڈالے پارٹی کی پیروی پر تلے ہیں۔

پارلیمان سے لے کر سڑکوں تک، ہر طرف بے یقینی کا راج ہے۔ سیاسی قیادت کے بیانات اور اقدامات میں تضاد عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوان صحافی معیز احمد کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا یوں پراسرار طریقے سے انتقال ہو جانا اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ الیکشنز میں جو کچھ ہوا یہ سب آج تک ایک سوالیہ نشان ہے اور قائد اعظم تو کہتے تھے کہ ہمارے پاس اسلامی دستور اور اسلامی نظام موجود ہے ہم نے صرف اس کو عمل درآمد میں لے کر آنا ہے لیکن اس کے بعد بھی وہی برطانوی قانون پاکستان میں نافذ ہے۔ یہ مکمل طور پر تو اسلامی قوانین پر مشتمل نہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس کی بنیاد ہی درست طور پر نافذ نہیں تو یہ سب بذات خود سب سے بڑا انحراف ہے۔

عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔ نوجوان صحافی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام یہ بنیادی طور پر نظام یا سسٹم کا مسئلہ ہے اس کے لیے سیاسی قیادت کو ذمہ دار قرار دینا یا سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا ایک ادھوری بات ہے کیونکہ سیاستدان بھی اسی نظام کی پیداوار ہیں اور اسی نظام کے اندر رہ کر یا اسی نظام کے تحت کام کرتے ہوئے اپنے معاملات کو لے کے چلتے ہیں،لیکن اصل مسئلہ اس سسٹم کی خرابی ہے۔

معیز احمد نے کہا ہے کہ  اصل میں جب تک ہمارا سیاسی و سماجی نظام درست نہیں ہوگا تو ہم کبھی بھی پاکستان میں سیاسی استحقام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہم لوگ اکثر سیاست دانوں کو یا اداروں کو اس صورتحال کا ذمہ دار کہتے ہیں لیکن جب تک ملک کے چلنے کا دائرہ کار درست نہیں ہوگا تب تک کسی طور ببی تبدیلی نہیں آسکتی.  اس کی مثال ایسی ہے ایک انجن جو کہ خراب ہے بند پڑا ہوا ہے یا ناکارہ ہے آپ ایک ماہر ترین ڈرائیور بھی بلا لیں تو کسی طرح بھی وہ اس انجن کو نہیں چلا پائے گا اب اس میں ہم ڈرائیور کو سو فیصد ذمہ دار نہیں کہہ سکتے جب انجن ہی خراب ہے ڈرائیور کیا ہی کر سکتا ہے۔

 پاکستان کی معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مہنگائی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے، بے روزگاری عام ہو چکی ہے اور بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی تک محدود ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی حالیہ بیان میں اس بات کا اعتراف کیا کہ قوم کو جھوٹے خواب دکھانا بند کرنا ہوگا اور معیشت کے لیے سخت مگر ضروری فیصلے کرنے ہوں گے۔

گزشتہ ایک عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد کم ہوگیا ہے۔ کچھ جھوٹے پروپیگنڈے وجہ بنے تو کچھ سیاسی عدم استحکام نے اس میں کمی کی۔

نوجوان صحافی نے بتایا ہے کہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہےاور اگر یہی صورتحال رہی تو ملک سول نافرمانی کی طرف جا سکتا ہے۔ لوگ قانون سے مایوس ہو کر غیر قانونی راستے اختیار کر رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل نہیں کر پاتے۔ اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے محض وعدوں پر نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر شفاف اور عملی اقدامات کریں تاکہ عوام کا بھروسہ بحال ہو سکے، ورنہ وقتی اقدامات کسی دیرپا بہتری کا باعث نہیں بن سکتے۔

پاکستان میٹرز کے اس سوال پر کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے پر نوجوان صحافی کہنا تھا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سودی نظام کا خاتمہ ناگزیر  ہے، جب کہ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدات کو بھی پاکستان کی معیشت پر ا یک بھاری بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔ صنعت کاری کا فروغ، چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور طلبہ کو اسکول کی سطح سے ہی نوکری کے بجائے کاروباری ذہنیت کی طرف لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا ستون ہوتی ہے اور پاکستان میں اس ستون کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں، سرکاری تعلیمی اداروں کی ابتر حالت اور معیارِ تعلیم میں کمی نے ملک کے نوجوانوں کو مایوسی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان  جو اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ ایک عظیم ملک تعلیم کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اگر نوجوانوں کو معیاری تعلیم دی جائے تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں۔

معیز احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیم جسے کہا جاتا ہے وہ کیا ہے مخصوص نصاب کی کتابوں کو بس بار بار یاد کر لینے کو ہم نے تعلیم کا نام دے دیا ہے، جب کہ تعلیم حقیقت میں شعور ہے  اور معاشرے کی تکمیل کے لیے بچوں کے ذہنوں کی تربیت ناگزیر ہے۔ اسکولوں کی سطح سے ہی ہم نے طلباء کو پہلے تو ایک ملازمتوں والا غلامانہ ذہن دیا اور پھر ان کو ایک محدود نمبر لینے والی سوچ دی جس نے انہیں اس سطح سے اوپر جا کر کچھ بڑا کرنے سے روکا۔

دوسری جانب سیاسات کے پروفیسر محمد عمیر نے کہا  کہ ” پاکستان کا عدالتی نظام بدقسمتی سے عام آدمی کو بر وقت اور مؤثر انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مقدمات کے طویل عرصے تک التوا، پیچیدہ عدالتی طریقہ کار، کرپشن، اور وسائل کی کمی وہ بنیادی مسائل ہیں جو نظام کو غیر مؤثر بناتے ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ عدلیہ بعض اہم مقدمات میں فعال کردار ادا کرتی ہے، مگر نچلی سطح پر انصاف کا حصول آج بھی ایک چیلنج ہے۔ عدالتی اصلاحات، ٹیکنالوجی کا استعمال اور جوابدہی کا نظام بہتر بنا کر ہی یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔”

عدالتیں کسی ریاست کے انصاف کا ستون ہوتی ہیں، لیکن پاکستان میں انصاف کے حصول کو پیچیدہ، سست اور مہنگا بنا دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے مطابق ملک دشمن عناصر کو سزائیں دی گئی ہیں اور ملزمان کو فوجی عدالتوں میں فیئر ٹرائل کا موقع بھی دیا گیا، تاہم یہ نظام عام شہری کے لیے کس حد تک قابلِ اعتماد ہے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

جب معاشرہ اجتماعی اقدار سے ہٹ کر ذاتی مفادات کی طرف بڑھتا ہے تو قوم، ہجوم میں بدلنے لگتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سالوں میں یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ انفرادی سوچ، بے اعتمادی اور سماجی تقسیم نے ہمیں ایک مضبوط قوم سے کمزور ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے۔

پروفیسر محمد عمیر نے کہا کہ ” قوم وہ ہوتی ہے جو ایک نظریہ، مقصد اور اجتماعی شعور رکھتی ہو، جب کہ ہجوم جذبات کے تابع، وقتی اور بےسمت ہوتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی تقسیم، تعلیمی فقدان، اور میڈیا کی پولرائزیشن نے قوم کو ہجوم میں بدلنے کا عمل تیز کیا ہے۔ ہم نے اجتماعی مفاد کے بجائے ذاتی، لسانی یا گروہی مفادات کو ترجیح دی۔ یہ تبدیلی ریفارمز، یکساں تعلیمی نظام، اور مثبت قیادت کے ذریعے واپس قوم سازی میں بدلی جا سکتی ہے۔”

میڈیا کو معاشرے کی رہنمائی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، لیکن آج میڈیا بھی مختلف دباؤ اور تجارتی مفادات کے باعث اپنی غیر جانبداری کھو بیٹھا ہے۔ عوامی مسائل کی بجائے سنسنی خیزی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ پر توجہ دی جاتی ہے۔

پروفیسر عمیر نے بتایا کہ ” میڈیا کا کردار دوہرا ہو چکا ہے۔ ایک طرف کچھ ادارے قوم سازی، شعور بیداری اور معلومات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تو دوسری طرف کئی چینلز سنسنی خیزی، سیاسی جانبداری، اور نفرت انگیزی کے ذریعے عوام کو تقسیم کر رہے ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ میڈیا قوم سازی میں مثبت کردار ادا کرے۔”

اگرچہ حالات مایوس کن ہیں، لیکن پاکستان کے عوام اب بھی امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انفرادی سطح پر تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کوششوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے اور قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔

سیاسیات کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ “پاکستان کو ایک متحد اور مستحکم ریاست بنانے کے لیے ریاستی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک ایسا تعلیمی نظام نافذ کیا جائے جو تمام طبقوں کو یکساں مواقع دے اور قومی شناخت کو مضبوط کرے۔  اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے عدل، شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے روزگار، کاروبار اور بنیادی سہولیات پر توجہ دی جائے تاکہ عوام کی محرومیاں کم ہوں اور وہ خود کو ریاست کا فعال حصہ محسوس کریں۔ جب ریاست عوام کو مساوی حقوق دے گی اور ہر شعبے میں انصاف ہوگا تو پاکستان ایک متحد، پرامن اور مستحکم ملک بن سکے گا۔”

پاکستان کو درپیش چیلنجز کے باوجود، عوام کا عزم اور حوصلہ قابلِ تحسین ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم، انصاف، اور معاشی استحکام کے ذریعے ہی پاکستان کو اس کے بانیان کے خواب کے مطابق ایک مثالی ریاست بنایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ موجودہ حالات مایوس کن ہیں، لیکن امید کی کرن اب بھی موجود ہے۔ عوام کی جدوجہد اور قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹ سکتا ہے۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس