یمن کی سرزمین پر جاری غیر اعلانیہ جنگ میں حوثی باغیوں نے پچھلے چھ ہفتوں کے دوران امریکا کے سات جدید ترین MQ-9 ریپر ڈرونز کو نشانہ بنا کر واشنگٹن کو 200 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔
امریکی دفاعی حکام نے اس حیران کن پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حوثیوں کی دفاعی صلاحیتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
پچھلے ہفتے کے دوران ہی تین ڈرون گرائے گئے جن کی قیمت تقریباً 90 ملین ڈالر بنتی ہے۔ ان ڈرونز کا بنیادی کام حوثی ٹھکانوں پر نظر رکھنا اور فوری حملے کرنا تھا مگر اب وہ خود نشانہ بن کر یا تو یمن کے پہاڑی علاقوں میں گرے یا بحیرہ احمر کی تہہ میں دفن ہو چکے ہیں۔
یہ ڈرونز جو 40,000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں، جدید نگرانی اور حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں جنرل ایٹومکس نے تیار کیا تھا۔
لیکن حوثیوں نے جس طرح انہیں ایک ایک کر کے گرایا ہے اس نے پینٹاگون کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
لازمی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فورسز کا حملہ: ایک ہی گھر کے 12 افراد شہید
15 مارچ سے امریکا نے یمن میں روزانہ کی بنیاد پر حملے شروع کیے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق اب تک 800 سے زائد حوثی اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں اسلحہ کے ذخائر، کمانڈ سینٹرز اور ڈرون لانچنگ سائیٹس شامل ہیں۔
تاہم، ان حملوں کے باوجود حوثیوں کی مزاحمت اور ڈرون حملے مسلسل جاری ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق حوثیوں کے حملوں کا ہدف صرف امریکی افواج نہیں بلکہ تجارتی بحری جہاز بھی ہیں جنہیں وہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں نشانہ بنا رہے ہیں۔
اگرچہ تاحال کوئی امریکی بحری جنگی جہاز متاثر نہیں ہوا لیکن خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکا نے دو طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین اور یو ایس ایس کارل ونسن کے علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔
دوسری جانب امریکی سینیٹرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان فضائی حملوں میں عام شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر راس عیسیٰ فیول ٹرمینل پر ایک حالیہ حملے میں مبینہ طور پر 70 سے زائد معصوم افراد شہد ہوگئے جس پر امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیته کو خط بھی لکھا گیا ہے۔
یمن کا آسمان اب صرف جنگی جہازوں کی گرج اور عالمی سیاست کی ہلچل سے لرز رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پہلگام حملہ: ایک واقعہ دو بیانیے، کیا جنوبی ایشیا کا امن پھر سے خطرے میں ہے؟