April 26, 2025 11:17 pm

English / Urdu

Follw Us on:

ایران سے معاہدے میں اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو دوسری راہ بھی کھلی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ڈونلڈ ٹرمپ

ایران اور امریکا کے اعلیٰ سطحی نمائندے عمان کے دارالحکومت مسقط میں نہایت اہم مشن پر دوبارہ آمنے سامنے آ چکے ہیں اور اس بار بات صرف الفاظ کی نہیں، بلکہ ممکنہ جنگ اور امن کے بیچ کی ہے۔

ہفتے کے روز شروع ہونے والے ان بالواسطہ مذاکرات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان عمانی ثالثوں کے ذریعے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

اس سے قبل روم میں ہونے والے دوسرے دور کو دونوں جانب سے ’تعمیراتی‘ قرار دیا گیا تھا لیکن اب مسقط میں ماحول کہیں زیادہ سنجیدہ اور حساس ہو چکا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ جو اپنے دوسرے دور صدارت میں عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے سرگرم ہیں، اب ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ نئے ایٹمی معاہدے کے لیے پُر امید ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹائم میگزین کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے ہم ایران سے معاہدہ کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو دوسری راہ بھی کھلی ہے۔

یہ “دوسری راہ” بلا شبہ عسکری کارروائی ہے اور یہی وہ جملہ ہے جو مسقط میں ہونے والی بات چیت کو صرف مذاکرات نہیں بلکہ ممکنہ تصادم سے پہلے کی آخری کوشش بنا دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک جانب قحط تو دوسری طرف اسرائیل کی بمباری، 45 فلسطینی شہید

اس وقت ایران کی اقتصادی حالت خستہ ہے۔ پابندیوں کی ماری معیشت، اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں ہونے والی مسلسل عسکری ناکامیاں اور عوامی دباؤ، یہ سب مل کر ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کر چکے ہیں۔

دوسری جانب ایران کی اپنی سرخ لکیریں بھی واضح ہیں، یورینیم کی افزودگی ختم نہیں ہوگی، موجودہ یورینیم ذخائر پر کوئی سودا نہیں ہوگا اور دفاعی میزائل پروگرام ہرگز قابل گفت و شنید نہیں۔

ایسے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا یہ کہنا کہ “ایران کو اپنے جوہری پاور پلانٹ کے لیے افزودہ یورینیم درآمد کرنا ہوگا۔”

تہران کے قریبی ذرائع کے مطابق ایران کسی حد تک ایٹمی سرگرمیوں پر پابندیاں قبول کرنے پر آمادہ ہے مگر اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا ہرگز نہیں کرے گا۔

دوسری طرف یورپی طاقتیں خاص طور پر فرانس اور جرمنی بھی پس پردہ امریکا پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ نیا معاہدہ صرف افزودگی تک محدود نہ ہو بلکہ ایران کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو بھی روکنے کے لیے سخت شرائط عائد کی جائیں۔

تاہم تہران کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے اور خطے میں کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں درجنوں بیلسٹک میزائل فائر کیے تھے جو اس خطے کی کشیدگی میں آگ بھڑکانے کے مترادف تھے۔

مزید پڑھیں: ایک جانب قحط تو دوسری طرف اسرائیل کی بمباری، 45 فلسطینی شہید

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس