انڈیا نے ایک بار پھر خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دریائے جہلم میں اچانک پانی چھوڑ کر مظفرآباد کے عوام کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا۔
دریا میں غیر متوقع طغیانی سے نہ صرف پانی کی سطح بلند ہوئی بلکہ کنارے پر آباد بستیوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔
ہٹیاں بالا کے مقامی افراد کے مطابق رات گئے اچانک دریا کا بہاؤ غیر معمولی ہو گیا، مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں پر ہنگامی اعلانات شروع کیے گئے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی تلقین کی گئی۔
مظفرآباد انتظامیہ نے فوری طور پر آبی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ریسکیو اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔
انڈین اقدام کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانی چھوڑنے سے پہلے کسی قسم کی اطلاع دینا تو درکنار، بین الاقوامی ضابطوں اور سندھ طاس معاہدے کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔
یہ وہی معاہدہ ہے جس نے تین جنگوں، سرحدی کشیدگی اور پے در پے بحرانوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعے سے بچائے رکھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دراصل حالیہ دنوں وادی پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا کی طرف سے کی گئی دھمکیوں کا عملی مظاہرہ ہے۔ جس میں سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے جیسے خطرناک اعلانات شامل تھے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی فورمز سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اگرچہ ایک رسمی بیان جاری ہوا ہے، مگر خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال ایک مؤثر اور فوری مداخلت کی متقاضی ہے۔
کیا عالمی برادری اب بھی خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ یا خطے کو ممکنہ آبی بحران سے بچانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا؟
مزید پڑھیں: پاکستان دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہے، وزیر اعظم شہباز شریف