Follw Us on:

محمود غزنوی اور آریائی فریب کا پردہ فاش

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Mehmood ghaznavi

وسیم بھٹی صاحب لگتا ہے کسی نے دھوکے سے آپ کو گئو متر پلادیا ہے یا آپ نے خود جوش عقیدت میں نوش فرمالیا ہے جس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ جس ہندوتوا اور سومناتھ مندر کی آپ بات کررہے ہیں یہ آریاؤں کا تخلیق کردہ مذہب تھا اور آریا تو خود invaders تھے جنہوں نے ہزاروں سال پہلے وسطی ایشیا سے ہندوستان پر دھاوا بولا تھا۔ اصل میں تو یہاں کے مقامی اور قدیم باشندے دراوڑ تھے جو دھات کے زمانے سے بھی پہلے سے برصغیر میں آباد تھے۔

یہ دراوڑ برصغیر میں کہاں سے وارد ہوئے اس کی الگ مختلف تھیوریز ہیں مگر یہ کم از کم حملہ آور نہیں تھے۔ جن پر آریاؤں نے اپنی طاقت اور جنگی مہارت کی بنیاد پر انتہائ جبر و ظلم کیا اور ان کو جنوب کی جانب سمندر کی طرف دھکیل دیا۔

آج بھی آپ کو جنوبی ہند تامل ناڈو وغیرہ میں گہری سیاہ رنگت اور پستہ قد موٹے ناک نقشے والے درواڑ نسل کے لوگ ملیں گے۔ یہ انڈیا کے اصل باشندے ہیں۔ یہ جو ساؤتھ آجکل فلموں میں چھایا ہوا ہے یہ درواڑ ہیں۔ آریا سماج تو بذات خود ایک بدترین حملہ آور تھے جنہوں نے مقامی باشندوں کو اچھوت اور شودر کا درجہ دے کر انتہائ ذلت آمیز سلوک کیا۔

اب ہر فرعون کے لئے موسی تو پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ حملہ آور لٹیرے انڈیا کی اصل قوم کو سمندر کنارے کھدیڑنے کے بعد خوب رچ بس گئے اور اپنا مذھب لاگو کردیا تو پھر اسی وسط ایشیا سے مسلمان حملہ آور ہوگئے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ایک دو نہیں سترہ حملے۔ یکے بعد دیگرے اور دیگرے بعد یکے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ‘چوراں نوں پے گئے مور’۔

دنیا کی تاریخ میں ہر زمانے کا ایک دور اور انداز رہا ہے۔ دنیا میں ہمیشہ سے طاقت کا زور رہا ہے اور طاقتور اقوام ہمیشہ سے کمزور اقوام پر حملے اور قبضے کرتی رہی ہیں۔

کیا منگولوں نے مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی؟ اور یہ یورپ کی جنگیں نپولین، ہٹلر تو ابھی ایک دو صدی پرانی تاریخ ہے۔ امریکہ جیسے مہذب ملک نے جاپان پر ایٹم بم نہیں گرایا؟ لیکن آپ کو صرف محمود لٹیرا نظر آرہا ہے۔ پھر رہی سہی کسر غوری اور دیگر مسلمان بادشاہوں نے پوری کردی اور مغل تو ساڑھے تین سو برس حکومت کرگئے۔

پھر انگریز آگئے۔ یعنی یہ طاقت کا قانون تو دنیا بھر میں رائج رہا ہے۔ انگریزوں نے تو بلاتفریق مندر مسجد گردوارے سب لوٹے اور لوگوں کو غلام بھی بنایا۔ محمود نے کم از کم غلام تو نہیں بنایا۔ چیلنج دے کر آتا تھا۔ چھپ کر حملہ نہیں کرتا تھا۔

آپ جانتے ہیں کہ وسط ایشیا سے انڈیا پر حملہ کرنے لئے کتنے مہینے لگتے ہیں؟ یہ فوجیں چھ ماہ آٹھ ماہ کا سفر کرکے انڈیا پہنچا کرتی تھیں اور یہ حملے سے آٹھ ماہ پہلے سے جانتے تھے کہ محمود چل پڑا ہے۔ اس کے باوجود سے سارے مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ وہ کبڈی کبڈی کرتا دور سے آتا تھا اور ان کے دوچار کو رگید کر واپس چلا جاتا تھا۔

یورپ میں بادشاہ اور شہنشاہ ایک دوسرے پر چڑھائیاں اور قبضے کرتے رہے ہیں۔ رومن اور اسپارٹن کے درمیان چھتیس کا آنکڑا تھا۔ ایشیا کے ہر ریجن میں یہ جنگیں، حملے اور قبضے چلے ہیں۔ اور تو اور یہ امریکہ جو دنیا کی معلوم تاریخ میں گمنام رہا اور ابھی صرف 500 سال قبل دریافت ہوا تو وہاں بھی ان کی تاریخ سے پتہ چلا کہ تہذیبوں، باشاہوں اور حملہ آوروں کا ٹکراؤ تو وہاں بھی رہا ہے۔ انکاز، مایاز، ایزٹیک تہزیبیں اور ان کے ٹکراؤ تو بہت نمایاں ہیں۔

یہ قدرت کا قانون ہے۔دنیا کی ہر قوم کی تاریخ کا 70 فیصد تو جنگوں اور حملہ آوروں سے بھرا ہے۔

آپ کو صرف محمود غزنوی کس لئے لٹیرا لگ رہا ہے؟ یہ جو محمود سے نفرت ہے یہ دراصل کسی اور سے نفرت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ عرب میں ہوتے تو یقیناً ابوجہل اور ابولہب کو بھی مقامی ھیرو قرار دے دیتے۔

یہ لٹیرے آریا کی قوم کو خدا نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا محکوم رکھا کیونکہ یہ اسی قابل تھے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ان کو آزادی ملے صرف 76 برس ہوئے ہیں اور یہ آپ کو کیسے ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسا فتنہ فساد اور ادھم برپا کررکھی ہے کہ خطے کا امن و سکون برباد کررکھا ہے۔ آپ کا حقہ پانی بند کردیا ہے۔ چانکیا کے پیروکاروں کی سازشیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کبھی ان کے گریٹر انڈیا کے منصوبے کو پڑھا ہے کہ یہ کیا خواب دیکھ رہے ہیں؟ کبھی اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو دیکھا ہے جس کی تکمیل پر یہ عمل پیرا ہیں؟ یہ تو آپ کی نسل تک تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔

یہ اھنسا کے پجاری نہیں چانکیا کے پیروکار ہیں۔ چانکیا کو جانتے ہیں نا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اب اگر کوئ دوسرا محمود غزنوی اللہ نے پیدا نہ کیا تو آپ کی اگلی نسلیں پیتل کی گڑوی میں چلو بھر گئو متر خود پر چھڑک کر ہری اوم ہری ۔۔۔ ہرے کرشنا ہرے رام اور گن پتی بپا کو پرنام سے دن کا آغاز کریں گی۔ بالکل اس طرح جیسے ان کی فلمیں دیکھ کر آپ کو غزنوی ولن اور گوہل ھیرو لگ رہا ہے۔ بقول آپ کے گوھل نے ناکوں چنے چبوا دیئے اس کے باوجود محمود 17 بار آیا۔

یاد رکھئے جس طرح خود بخود بچے پیدا نہیں ہوتے اسی طرح فلموں سے تاریخ نہیں بدلتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ محمود غزنوی اور اس کے کارناموں کو دنیا جانتی ہے جبکہ ہمیر جی گوھل کو تازہ تازہ بالی ووڈ نے دریافت کیا ہے اور آپ پنگی بجاتے چل پڑے اس کے پیچھے۔ افسوس صد افسوس۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس