Follw Us on:

غزہ پر حملوں کے خلاف احتجاج: ٹیکساس یونیورسٹی کے طلباء کا گورنر اور پولیس پر گرفتاریوں کے خلاف مقدمہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

یونیورسٹی آف ٹیکساس آستین کے پرامن طلباء اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو اچانک ریاستی پولیس نے ان کا محآصرہ کرلیا۔

اب، ان ہی چار طلباء نے ریاستی گورنر گریگ ایبٹ، یونیورسٹی کے صدر جے ہارٹزل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

ان کا الزام ہے کہ ان کی گرفتاری نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ ان کے آئینی حقوق پر ایک سیدھا حملہ تھا، خاص طور پر آزادیِ اظہار اور پُرامن اجتماع کے حقوق پر۔

یہ مقدمہ امریکی-عرب اینٹی ڈسکریمنیشن کمیٹی (ADC) نے سان انتونیو کی وفاقی عدالت میں دائر کیا ہے۔

مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 24 اپریل 2024 کو کیمپس میں ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لیے ریاستی سطح پر منظم طاقت کا استعمال کیا گیا، جس کا حکم بذات خود گورنر ایبٹ نے دیا۔

پولیس نے بکتر بند لباس پہنے، آنسو گیس کے شیل داغے اور درجنوں مظاہرین کو بے دردی سے گرفتار کر لیا۔ ان میں سے بیشتر بعد میں بغیر کسی چارج کے رہا کر دیے گئے، ٹریوس کاؤنٹی اٹارنی آفس نے صاف کہہ دیا کہ “کسی بھی گرفتاری کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔”

لازمی پڑھیں: ’سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنانا افسوس ناک ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو

دوسری جماعت کی طالبہ اروِن ہیلرین نے بتایا کہ وہ زمین پر گرائی گئیں، ہاتھوں میں سختی سے زپ ٹائیز کس دی گئیں اور وہ اس وقت سے شدید ذہنی دباؤ اور PTSD کا شکار ہیں۔

 وہ کہتی ہیں کہ “ہمیں دہشت گردوں کی طرح دکھایا گیا، جیسے ہم کسی جرم کے مرتکب ہوں، لیکن ہمارا واحد ‘جرم’ سچ بولنا تھا۔”

تیسری جماعت کی طالبہ میا سسکو، جن کا حجاب زبردستی اتار دیا گیا، وہ کہتی ہیں کہ “یہ لڑائی اب صرف میرے لیے نہیں، ان سب کے لیے ہے جن کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں۔”

یونیورسٹی نے ردِعمل میں ایک مختصر بیان جاری کیا کہ ان اقدامات کا مقصد کیمپس کی سیکیورٹی اور ضوابط کا نفاذ تھا۔ ترجمان مائیک روزن کا کہنا تھا کہ “اکثریت وہ افراد تھے جو یونیورسٹی سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔”

ADC کے ڈائریکٹر عبد ایوب کا کہنا ہے کہ “گورنر ایبٹ اور ان کے حمایتی یہ سمجھنے میں ناکام ہو رہے ہیں کہ امریکی، خصوصاً ٹیکساس کے عوام، اپنے آئینی حقوق اور خاص طور پر اظہارِ رائے کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”

یہ مقدمہ صرف ایک قانونی جنگ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے، یہ طے کرے گی کہ آیا امریکا کی جامعات آئندہ نسلوں کو سوچنے، بولنے اور سچائی کے لیے کھڑا ہونے کا حق دیں گی یا نہیں۔

مزید پڑھیں: یوکرین کی ’قیمتی معدنیات‘ امریکا کے ہاتھ میں، معاہدہ طے پا گیا

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس