دنیا تیزترین انٹر نیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، تھری جی اور فورجی کا زمانہ پرانا ہوا ہے تو فائیو جی کا دور آرہا ہے مگرپاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، جو انٹرنیٹ میسر ہے وہ بہت سست ہے۔
انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت تنقید کی زد میں ہے،سوشل میڈیا سے ایوانوں تک آواز اٹھائی جارہی ہے، کبھی فائر وال تو کبھی وی پی این کا بہانہ بنایا جاتا ہے، اب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ حکومت نے انٹرنیٹ کی تیز ترین فراہمی والی کمپنی اسٹارلنک کو بھی رجسٹرڈ کرلیا ہے۔ جس کے بعد یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اورسوشل میڈیا ایپس میں خلل دور ہوجائے گا، فی الحال انٹرنیٹ کی بندش سے صارفین اور فری لانسرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انٹرنیٹ کی سست روی کی ایک وجہ زیر سمندر سب میرین کیبل ایشیا افریقہ یورپ ون کی خرابی بتائی جارہی ہے اور اِسکی مرمت پر پی ٹی سی ایل ہاتھ کھڑے کرتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کا کہنا ہے کہ میرین کیبل کی مرمت کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔یعنی انٹرنیٹ کتنی دیر تک سلو رہتا ہے اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اب حکومت کی جانب سے وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش پر صفائیاں دی جارہی ہیں ۔جیسا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی سائبر سیکیورٹی پر توجہ دے ،کچھ مسائل کا سامنا ہے جو دو تین چار مہینے کے اندر حل ہو جائیں گے ایسا نہیں ہے کہ پانچ سال اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔
اب ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار بہتر نہیں ہوسکی ایسے میں صارفین یہ سوال تو اُٹھائیں گے کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹھیک بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ بہرحال سوال تو انٹرنیٹ وائی فائی پر بھی اُٹھ رہا ہےاور یہ سوال خود حکومت اُٹھا رہی ہے۔خبر کے مطابق حکومت نے وائی فائی نیٹ ورکس کو غیر محفوظ قراردیدیا۔ اس حوالے سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تمام اداروں کو وائرلیس نیٹ ورکس کے بارے میں سیکیورٹی تھریٹ سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی۔

انٹرنیٹ سپیڈ پرکھنے والی عالمی تنظیم ‘اوکلا سپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس’ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ پابندیوں کے باعث پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے دنیا کے سست ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، اس فہرست میں پاکستان موبائل انٹرنیٹ سپیڈ کے اعتبار سے 111 ممالک میں سے 100ویں نمبر پر ہے جبکہ براڈبینڈ سپیڈ کے لحاظ سے 158 ممالک میں سے 141ویں نمبر پر آگیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سپیڈ کم ہونے کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے فائروال کی تنصیب ہے، فائروال ایک ایسا نیٹ ورک سکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک پر آنے اور جانے والی ٹریفک کو قوانین کے مطابق بلاک کرتا ہے یا اجازت دیتا ہے۔ اس سسٹم کی تنصیب سے حکومت شہریوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔
آئی ٹی کے ماہر عمار جعفری نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ “انٹرنیٹ بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے اور اگر آپ اس کے آگے جالی لگادیں گے تو وہ آہستہ ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جالی کتنی پتلی یا موٹی ہے۔ اگر جالی میں سوراخ بڑے ہوں گے تو اس میں سے تیزی سے پانی جائے گااور اگر سوراخ چھوٹے ہوں گے تو پانی آہستہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ہمارے انٹرنیٹ میں بھی اب ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہے جس سے زیادہ معلومات ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ آہستہ کام کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے لی گئی ہے اس لیے ہمارے یہاں آہستہ ہے۔”
انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری سے آن لائن کاروبار کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے سدِباب کے لئے صارفین نے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال شروع کیا، لیکن حکومت کی جانب سے وی پی این کی بندش بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
موجودہ دورمیں انٹرنیٹ اورمصنوعی ذہانت (اے آئی) دنیا میں انقلاب برپا کر رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوتی جارہی ہے، صارفین کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ میسجنگ ایپ ‘واٹس ایپ’ کے ذریعے بھی عزیز و اقارب سے رابطے میں مشکلات درپیش ہیں۔

انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے. پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد سید کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستان کو یومیہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ایک گھنٹہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے 9 لاکھ 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہو رہاہے۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے عالمی کمپنیوں نے مختلف آپریشنز باہر منتقل کرنا شروع کردیے ہیں۔
جبکہ حکومت پر انٹرنیٹ کی ناقص اسپیڈ کی وجہ سے تنقید بھی ہورہی ہے ۔پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین کا میڈیا سے گفتگومیں کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سلو کرنے سے ہماری یوتھ اور ہمارے کاروبار کا نقصان ہوا۔اِس کا جواب کون دے گا۔
انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتار نے تیزی سے ترقی کرتی فری لانسنگ انڈسٹری کو بھی مشکلات میں دھکیل دیا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 5 سے 6 لاکھ فری لانسرز اور تقریباً 25 ہزار کمپنیاں اسی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں۔،آئی ٹی سیکٹر کے فروغ اوراس کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے حکومتی دعووں کے باوجود یہ انڈسٹری صرف 2.7 بلین ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے، دوسری جانب ہمسایہ ملک بھارت آئی ٹی ایکسپورٹ سے سالانہ 300 بلین ڈالرز سے زائد کی آمدنی حاصل کر رہا ہے۔
عمارجعفری کا کہنا تھا کہ “یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اس طرح کی ٹیکنالوجیز آتی ہیں جس سے انٹرنیٹ پہ شائع ہونے والی معلومات کو روکا اور چیک کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جس طرح سے کیا گیا ہے یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ یہ چیزیں فیلڈ کے لوگوں کوکرنی چاہئیں بجائےکسی سیاستدان کے۔عام طور پہ فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جن کا تعلق فیلڈ سے نہیں ہوتا”۔
حکومت پاکستان نے امریکی ارب پتی ایلون مسک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی اسٹار لنک کی خدمات حاصل کرلی ہیں اور یہ کمپنی پاکستان میں رجسڑڈ ہوچکی ہے ۔اسٹار لنک کے پاکستان میں آنے سے انٹرنیٹ کے تیز اور بلاتعطل سہولت ملنے کی اُمیدیں جاگ اُٹھی ہیں۔

اسٹار لنک کیا ہے؟
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آرہا ہوگا کہ اسٹارلنک کیا ہے؟تو اسٹار لنک ایک ایسی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس ہے جو اسپیس ایکس کمپنی فراہم کرتی ہے، اس کا مقصد دنیا کے مختلف حصوں میں تیز رفتار اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا ہے. خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں روایتی انٹرنیٹ کنکشن جیسے فائبر آپٹکس یا کیبل دستیاب نہیں ہیں۔
اسٹار لنک سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ سروس فراہم کرتا ہے، جس میں زمین سے خلا میں سیکڑوں سیٹلائٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسٹار لنک انٹرنیٹ سے جڑے مسائل کو حل کر پائے گا؟ تو آئی ٹی ماہرین کے بقول جیسے ہر نئی چیز جب مارکیٹ میں آتی ہے تو لوگ اس حوالے سے بہت پرجوش نظر آتے ہیں۔
لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اسٹار لنک کو پاکستان کے رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق آپریٹ کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے جب کوئی بھی کمپنی پاکستان کے رولز اینڈ ریگولیشنز میں آئے گی تو وہ ان تمام رولز کی پابند بھی ہوگی۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور آن لائن مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹارلنک کے ذریعے بھی شاید ملک میں آزاد انٹرنیٹ کی فراہمی ممکن نہ ہو۔
کچھ ماہرین کے بقول ویسے تو سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں خلل ڈالنا یا رکاوٹ پیدا کرنا مشکل ہے لیکن پھر بھی اہم بات یہ ہے کہ سٹارلنک جیسی کمپنیاں حکومت سے کیا معاہدے کرکے آرہی ہیں۔ یعنی ابھی یہ ابہام دورہونا باقی ہے کہ آیا سٹارلنک سےانٹرنیٹ کی رفتار تیز ہوگی اور حکومت اِس پر کوئی پابندی نہیں لگائے گی؟

روایتی انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں سٹارلنک مہنگا ہے۔ صارفین کے لیے اس کی ماہانہ فیس 99 ڈالر ہےجبکہ انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی ڈِش اور راؤٹر کی قیمت 549 ڈالر ہے۔ اِس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سٹارلنک پاکستان میں اپنی سروس شروع کرتا ہے تو ملک میں انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے اور بھی کئی سوالات کھڑے ہو جائیں گے۔اور اس سروس کا آنا پاکستان میں ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا بھی کر سکتا ہے،کیونکہ جہاں کچھ خاص لوگ اِس سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ وہاں باقی افراد کو وہی خراب انٹرنیٹ سروسز پر انحصار کرنا پڑے گا۔
سٹارلنک کے بارے میں سوال کے جواب میں عمار جعفری نے کہا کہ “سٹار لنک کے آنے سے انٹرنیٹ بہت تیز ہوجائے گا۔ہمارے یہاں ابھی 5جی نہیں آئی اور سٹارلنک 6 جی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا انفراسٹرکچراس قابل ہے کہ اس کے ساتھ چل پائے گا۔ حکومت کے روابط سٹار لنک کے ساتھ چل رہے ہیں اور امید ہے کہ اگلے 3 ماہ تک سٹار لنک پاکستان میں آجائے گا”۔
پی ٹی سی ایل کی جانب سے رواں ہفتے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ معمول پر آ چکی ہے لیکن عوام کی جانب سے انٹرنیٹ کے متعلق شکایات مسلسل جاری ہیں۔ بہر حال سٹارلنک کے آنے سے حقیقی طور پر کیا ہوگا یہ اسی وقت پتا چلے گا جب سٹار لنک کی سروسز شروع ہوں گی۔