پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 22 اپریل کو انڈیا زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ آیا ہے۔
انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے جب کہ اسلام آباد نے اس کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جواباً، انڈیا نے پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کم کر دیے ہیں، سرحدی تجارت معطل کر دی ہے اور “سندھ طاس” معاہدہ کو معطل کر دیا ہے۔
پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں کمی کی ہے اور “شملہ معاہدہ” سے دستبرداری کی دھمکی دی ہے۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کیا ہے اور سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے جاری ہیں۔
یہ کشیدگی 2019 کے بحران کی یاد دلاتی ہے جب انڈین فوج نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا۔
پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈین طیارے مار گرائے تھے اور ایک انڈین پائلٹ کو گرفتار کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے لیکن عالمی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے باعث جنگ ٹل گئی تھی۔
پاکستان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اس موجودہ بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم انڈیا کے ساتھ بڑی جنگ نہیں دیکھتے لیکن ہمیں تیار رہنا ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “بحرانی طریقہ کار کی کمی دونوں ممالک کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔”
اس بحران میں عالمی برادری بھی مداخلت کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے بات کی ہے اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں سے ملاقات کی ہے اور ان سے انڈیا پر دباؤ ڈالنے کی درخواست کی ہے تاکہ کشیدگی کم ہو سکے۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا امکان کم ہے لیکن موجودہ کشیدگی نے خطے میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔
عالمی برادری کی مداخلت اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست بات چیت اس بحران کے حل کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان اور انڈیا کو اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن قائم رکھا جا سکے۔
مزید پڑھیں: جنوبی وزیرستان میں خفیہ آپریشن، چار دہشت گرد ہلاک، دو سیکیورٹی اہلکار زخمی