لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما سر ایڈ ڈیوی نے اپنی ایک اہم تقریر میں برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے تجویز پیش کی ہے۔
سر ایڈ ڈیوی کا کہنا تھا کہ “یہ اقدام نہ صرف برطانیہ کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے، بلکہ عالمی سطح پر برطانیہ کو طاقتور پوزیشن میں رکھنے کے لیے بھی اہم ہے، خاص طور پر اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ” یہ پالیسی معیشت کی تیز رفتار ترقی کی جانب ایک عملی قدم ہے اور لبرل ڈیموکریٹس کے طویل مدتی مقصد یعنی یورپی یونین میں دوبارہ شمولیت کی طرف بھی ایک اہم پیش رفت ہو گی”۔
سر ایڈ نے خبردار کیا کہ” ٹرمپ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن برطانیہ کے مفاد میں ان سے مضبوط تعلقات استوار کرنا ضروری ہے”۔
اس کے علاوہ انہوں نے ٹرمپ کی امریکی صدارت کو دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ نے یوکرین پر روس کے حملے کو ‘جینیئس’ قرار دیا تھا اور تجارتی جنگوں کو خوش آئند سمجھا تھا”۔
اس کے برعکس لبرل ڈیموکریٹس نے برطانیہ کی موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی رہنماؤں پر شدید تنقید کی،انہوں نے وزیر اعظم کیمی بیڈنچ سے لے کر ریزرف یو کے کے رہنما نائجل فریج تک کو نشانہ بنایا،جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں بے جا لچک دکھانے کا الزام عائد کیا۔
سر ایڈ نے کہا کہ” اگر برطانیہ اس طرح ٹرمپ کے سامنے کمزور اور لچکدار نظر آیا تو ٹرمپ برطانیہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے گا اور اس کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لے گا۔
سر ایڈ ڈیوی نے برطانیہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی دیگر تجارتی شراکت داریوں،خاص طور پر یورپ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرے تاکہ ٹرمپ کو یہ واضح کیا جا سکے کہ برطانیہ بلیڈنگ یا دھونس کے تحت اپنے فیصلے نہیں کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرے تو وہ اسے صرف مالی اور فوجی مدد کے بدلے یوکرین کے مسئلے پر تعاون کرنے پر مجبور کرے۔
اس خطاب میں سر ایڈ نے کہا کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین سے دوبارہ جڑنا چاہیے تا کہ تجارتی رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے اور ملک کی معیشت کو تقویت دی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ان اقدام سے برطانیہ کو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر پوزیشن میں بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔
سر ایڈ ڈیوی نے اصرار کیا کہ برطانیہ کو 2030 تک یورپی یونین کے کسٹم یونین میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات کرنا شروع کر دینے چاہئیں۔
یہ تمام بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب برطانیہ کی معیشت میں حالیہ مہینوں میں کمی کا سامنا رہا ہے۔ نومبر کے مہینے میں معیشت میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا مگر یہ اضافہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات کی توقعات سے کم رہا۔
اس سب کے باوجود سر ایڈ نے کہا کہ کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے سے برطانیہ کی معیشت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی اور عالمی سطح پر اس کی پوزیشن مضبوط ہو گی۔

دوسری جانب حکومتی حلقوں سے اس پر شدید ردعمل آیا، برطانوی وزیر خارجہ پریتی پٹیل نے لبرل ڈیموکریٹس کے اس اقدام کو ایک ‘جمہوری فیصلے’ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء مکمل ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ حکومت برطانیہ کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سطح پر کامیاب تجارت کی راہ ہموار کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات صرف برطانوی عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ریفارم پارٹی کے نائب رہنما رچرڈ ٹائس نے بھی سر ایڈ کی تجویز پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کبھی بھی یورپی یونین کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جس سے برطانیہ کو نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ”یورپی یونین کی معیشت خود مشکلات کا شکار ہے اور برطانیہ کا اس سے دوبارہ تعلق قائم کرنا ایک بے وقوفانہ فیصلہ ہو گا”۔
اس خطاب میں سر ایڈ نے ایک واضح پیغام دیا کہ برطانیہ کو اپنی تجارتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی اپنانا ہو گی اور ان کی تجویز ہے کہ یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شمولیت اس کا بہترین طریقہ ہے تاکہ برطانیہ عالمی سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کر سکے،خاص طور پر ٹرمپ کے جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے۔