پاکستان اس وقت ایک شدید آبی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں اور اندرونی انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ ہے بلکہ انڈیاکی جانب سے آبی جارحیت نے بھی اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشتگرد حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے انڈیا نے 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا ، جس سے پاکستان کے لیے پانی کی فراہمی مزید متاثر ہوئی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی سے 1960 میں طے پایا تھا، انڈیا کو مشرقی دریاؤں (بیاس، راوی اور ستلج) کا کنٹرول دیا گیا، جب کہ پاکستان کو مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اورچناب) کا حق دیا گیا ۔ انڈیا کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان کو نہ صرف پانی کی فراہمی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ ہائیڈروپاور منصوبوں کی تعمیر سے بھی پاکستان کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرِ امور عالمی تعلقات ڈاکٹر شہزاد فرید نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ورلڈ بینک کی ذامنی میں طے پایا تھا۔ اس کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے منافی ہے۔ انڈیا کی جانب سے یکطرفہ معطلی نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ عالمی ثالثی عدالت میں چیلنج بھی کی جا سکتی ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے معاملے پر چند دنوں میں عالمی بینک سے باضابطہ رابطہ کیا جائے گا تاکہ پاکستان کے پانی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس سے عوامی حلقوں میں سوال کیا جارہا ہے کہ کیا انڈیا کی آبی جارحیت کو روکنے کے لیے محض سفارتی سطح پر آواز اٹھانا کافی ہے؟

اس حوالے سے نفسیات کی پروفیسر شمائلہ منہاس نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ جب تک ہماری اپنی پالیسیاں ٹھیک نہیں ہوجاتیں، تب تک سفارتی تعلقات سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ عالمی سطح پر یا کہیں اور جاکر آواز اٹھانے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں اپنے حق کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مارچ 2025 میں سندھ کے محکمہ آبپاشی نے خبردار کیا کہ منگلا اور تربیلا ڈیمز کے ذخائر چند دنوں میں مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔ تربیلا ڈیم میں صرف 0.102 ملین ایکڑ فٹ اور منگلا ڈیم میں 0.226 ملین ایکڑ فٹ پانی باقی رہ گیا تھا۔ یہ صورتحال نہ صرف زرعی پیداوار بلکہ پینے کے پانی کی فراہمی کو بھی شدید متاثر کر سکتی ہے۔
پاکستان میں پانی کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود ہے۔ ملک میں صرف دو بڑے ذخائر (منگلا اور تربیلا) ہیں، جو صرف 30 دنوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس انڈیا میں 5,000 سے زائد ڈیمز ہیں، جو 190 دنوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان ہر سال 29 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس مناسب ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہیں ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد فرید کا کہنا تھا کہ انڈیا کی ڈیمز پر جارحانہ پالیسی دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کر رہی ہے۔ خاص طور پر چناب اور جہلم پر بند باندھنے سے پاکستان کو زرعی پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ ملکی فوڈ سیکیورٹی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ہمارے ہاں اکثر ایک سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کی جدید ٹیکنالوجی یا صلاحیت موجود ہے؟
پروفیسر شمائلہ منہاس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اپنے دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی جدید ٹیکنالوجی اور صلاحیت موجود ہے، اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ حکومت اور اپوزیشن کا متحدہ ہوکر کام کرنے کی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اکٹھے ہوں، پانی کے ضیاع کو روکیں خواہ وہ کہیں بھی ہورہا ہو۔ سب متحد ہوکر آواز بلند کریں اور کسی کو اپنے حق کا پانی لے کر نہ جانے دیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی پاکستان کے آبی ذخائر پر منفی اثر ڈالا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے اور بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی نے دریاؤں کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے، جس سے سیلاب اور خشک سالی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف زراعت بلکہ ہائیڈروپاور پیداوار کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
شہزاد فرید نے پاکستان میں ڈیمز کی خطرناک حد تک کمی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں آبی ذخائر پر سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ پالیسیوں میں تاخیر، سیاسی عدم استحکام اور فنڈز کا ضیاع اس کمی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 30 دن کی ہے جو کہ دنیا میں سب سے کم ہے۔
دوسری جانب پروفیسر شمائلہ منہاس کا کہنا ہے کہ خامیاں پالیسیوں میں نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کرانے والے اور کس طریقے سے کرایا جاتا ہے اس میں ہوتی ہیں۔آبی پالیسی میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی جدید طریقہ کار نہیں ہےاور نہ ہی کوئی آبی پالیسی کی نگرانی کرنے والا ہے جو یہ دیکھے کہ اس پر عمل در آمد کس طرح سےہورہا ہے اور مزید بہتری کس طرح ہوسکتی ہے؟
انڈیا نے حالیہ برسوں میں دریاؤں پر کئی ہائیڈروپاور منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ڈیم اور 850 میگاواٹ کا رتلے ہائیڈروپاور منصوبہ شامل ہیں۔ پاکستان نے ان منصوبوں پر اعتراض کیا ہے کیونکہ یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
پانی کی کمی نے پاکستان کے عوام کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد پاکستانیوں کو سال میں کم از کم ایک ماہ شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال خواتین اور بچوں کے لیے خاص طور پر مشکل ہے، کیونکہ پانی کی کمی ان کی صحت اور تعلیم پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

پروفیسر شمائلہ منہاس نے کہا ہے کہ زرعی معیشیت کے لیےپانی کا صحیح وقت پر ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر پانی نہیں ہوگا تو فصلیں تباہ ہوجائیں گی، جس سے نہ صرف کسان بےروزگار ہوگا بلکہ پاکستان کی معیشیت پر بھی گہرا اثر ہوگا۔
پاکستان کو فوری طور پر پانی کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ نئے ڈیمز اور ذخائر کی تعمیر، نہروں کی لائننگ، اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ علاوہ ازیں انڈیا کے ساتھ پانی کے مسائل پر بات چیت اور عالمی برادری کی ثالثی سے مسائل کا حل تلاش کرنا بھی اہم ہے۔
ماہرِ امور عالمی تعلقات نے کہا ہے کہ پاکستان عالمی بینک، اقوام متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کر سکتا ہے کیونکہ یہ معاہدہ ان اداروں کی سرپرستی میں طے ہوا تھا۔ عالمی ثالثی عدالت میں باقاعدہ درخواست دینا ایک مؤثر قانونی قدم ہوگا۔
پاکستان کو درپیش آبی بحران ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شہزاد فرید نے کہا ہے کہ بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور گلیشیئرز کے پگھلاؤ نے آبی نظام کو بگاڑ دیا ہے۔ مؤثر آبی مینجمنٹ، رین واٹر ہارویسٹنگ، چھوٹے اور درمیانے ڈیمز کی تعمیر اس بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آبی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انڈیا کی آبی جارحیت، اندرونی انتظامی ناکامیاں اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو نہ صرف معیشت بلکہ عوامی صحت اور سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔