برطانیہ میں پناہ کی درخواستوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور 2024 میں ایک لاکھ آٹھ ہزار درخواستیں دائر کی گئیں، جو اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں اور پاکستانی اس میں سہرفرست ہیں۔
پاکستان سے 10,542 افراد نے درخواست دی، اس کے بعد افغانستان 8,508، ایران 8,099، بنگلہ دیش 7,225 اور شام 6,680رہے۔
یہ پانچ ممالک مجموعی طور پر گزشتہ سال کی تمام پناہ کی درخواستوں کا 38 فیصد بنتے ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان خوشحال مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے دی جانے والی پناہ کی درخواستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانیہ ایک نرم ہدف بن چکا ہے۔
2024 میں، امریکہ سے 99، اٹلی سے 22، پرتگال سے 20، فرانس سے 17 اور آسٹریلیا سے 10 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی۔
علاوہ ازیں، تیل سے مالا مال ریاستوں جیسے کویت (1,936)، بحرین (203) اور سعودی عرب (202) کے شہریوں نے بھی درخواستیں دیں۔ سیاحتی جنت سمجھے جانے والے کیریبیئن ممالک، جیسے ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو (444)، سینٹ ونسنٹ اینڈ گریناڈائنز (102) اور اینٹیگوا و باربودا (16) سے بھی درخواستیں موصول ہوئیں۔
برطانوی ہوم آفس کے مطابق، پناہ کے اہل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ درخواست دہندہ اپنے ملک کو کسی ظلم و ستم یا خطرے کے باعث چھوڑ چکا ہو اور واپسی سے قاصر ہو۔
ہوم آفس ایسے افراد کی بنیادی شہریت یا ترجیحی شہریت کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر شہریت پر اختلاف ہو تو وہی شہریت درج کی جاتی ہے جو حکام کو درست معلوم ہو۔
پناہ گزین کا درجہ یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ حاصل ہونے کے بعد ہی کسی فرد کو برطانیہ میں کام، تعلیم اور یونیورسل کریڈٹ جیسے فوائد حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
2024 میں امریکہ سے کی گئی ابتدائی درخواستوں میں سے 13 منظور ہوئیں اور 45 مسترد کر دی گئیں، یعنی منظوری کی شرح صرف 22 فیصد رہی۔ ان میں سے چار کو انسانی تحفظ کا درجہ اور نو کو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں پناہ کی درخواست دینے والوں میں تین چوتھائی مرد تھے، اور ان میں دو تہائی کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ صرف چار فیصد افراد 50 سال سے زائد عمر کے تھے۔