Follw Us on:

سربرینیکا کا نوحہ۔۔۔۔۔ایک قبر جو پوری امت میں پھیل گئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Khalid shahzad farooqi.jpg 1

چاندنی راتوں میں جب بوسنیا کی پہاڑیاں خاموش ہو جاتی ہیں، تب زمین کی تہہ سے وہ سسکیاں اٹھتی ہیں جنہیں انسانوں کی دنیا نے دفن کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ آہیں، وہ چیخیں، وہ التجائیں جو جولائی 1995 میں فضا میں بلند ہوئیں، آج بھی پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں۔۔۔۔۔ سربرینیکا محض ایک مقام نہیں، یہ ایک قبر ہے۔۔۔۔ایسی قبر جس میں امت مسلمہ کی غیرت،اتحاد اوراجتماعی ضمیر دفن ہے۔۔۔۔ بوسنیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں کا ذبح ہونا کوئی تاریخی اتفاق نہیں تھا، یہ ایک طے شدہ سازش تھی۔۔۔۔۔ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت نسل کشی، جسے جدید دنیا نے اپنی نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر انداز کیا۔۔۔۔ اقوامِ متحدہ کی نیلی وردی والے سپاہی،جو بظاہر “امن کے محافظ” تھے، وہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ ہنستے رہے۔۔۔۔۔ قہقہے لگاتے رہے اور انسانیت کا جنازہ گزر گیا۔

ان ماؤں سے پوچھو جنہوں نے اپنے لختِ جگر کا منہ آخری باردیکھا۔۔۔۔ ان بہنوں سے پوچھو جن کے بھائیوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔۔۔۔۔ ان بچوں سے پوچھو جو اپنے باپ کے ساتھ پہاڑوں کی طرف دوڑتے تھے اور پھر خون میں لت پت باپ کی لاش پر لیٹ کر سسکیاں لیتے تھے۔۔۔۔۔ دنیا کی کوئی لغت، کوئی زبان، ان آہوں کو بیان نہیں کر سکتی جو اس دن آسمان نے سنی تھیں۔۔۔۔ اور آج جب غزہ کی تباہ حال گلیوں میں بچے باپ کی انگلی تھامے بغیر دفن ہو رہے ہیں، جب کشمیر کی وادی میں ماؤں کی کوکھ چھلنی ہو چکی ہے، جب شام کے ملبے تلے اذانوں کی گونج دفن ہو چکی ہے، جب روہنگیا کے مسلمان بنگال کی لہروں میں لاشوں میں بدل چکے ہیں، جب چین میں مسلمانوں کی اذیت گاہوں پر دنیا خاموش ہے تو سربرینیکا کا نوحہ ایک چیخ بن کر پورے عالم اسلام میں گونجتا ہے۔۔۔۔۔

فلسطین کا بچہ جب ایک پتھر ہاتھ میں لیتا ہے تو وہ دراصل اسی بوسنیائی بچے کی روح ہے جو باپ کے جنازے پر بےبس کھڑا تھا۔۔۔۔۔ کشمیری بیٹی کی آنکھ جب ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہے تو وہ دراصل اس بوسنیائی بہن کا عکس ہے جس کا بھائی اجتماعی قبر میں دفن ہوا۔۔۔۔۔ یہ سب ایک ہی زنجیر کے کڑیاں ہیں۔۔۔ ظلم کی، بے حسی کی اور ہمارے سکوت کی۔۔۔۔ سربرینیکا کے لوگوں کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے ماننے والے تھے۔۔۔ وہ اذان دینے والے، وہ قرآن پڑھنے والے، وہ روزہ رکھنے والے، وہ سیدھے سادے لوگ۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے نہ کسی پر چڑھائی کی، نہ کسی کو للکارا لیکن ان کا مسلمان ہونا ہی ان کی گردن کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیا۔۔۔۔۔ دشمن نے کوئی ہتھیار نہیں چھپایا،کوئی وحشت نہیں چھوڑی،کوئی درندگی نہیں روکی اور ہم۔۔۔۔۔؟

ہم امت مسلمہ۔۔۔۔۔۔۔؟ ہم کہاں تھے۔۔۔۔۔؟ کیا ہمارے کانوں تک وہ چیخیں نہ پہنچی تھیں؟ کیا ہمارے دلوں تک وہ دکھ نہ اترے تھے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو نیند نہیں آئی تھی؟ کیا ہمارے خطبہ جمعہ میں کوئی امام ان مظلوموں کا تذکرہ کرنے سے بھی قاصرتھا؟ کیوں ہماری فوجیں حرکت میں نہ آئیں؟ کیوں ہماری آنکھوں سے نیند نہ چھن گئی؟ شاید اس لیے کہ مرنے والے ہمارے رنگ، ہماری زبان یا ہمارے خطے کے نہ تھے۔۔۔۔۔وہ صرف مسلمان تھے اور شاید ہم یہ پہچان ہی بھول چکے ہیں۔۔۔۔۔ 

مزید پڑھیں: فیک نیوز کا تدارک کیسے ممکن؟

راتکو ملاڈیچ کے فوجی جب بچوں کو ان کی ماں کی گود سے چھین کر لے جا رہے تھے، جب ماؤں کو چپ کرا دیا گیا تھا، جب بہنوں کے سروں سے چادرنوچی جا رہی تھی، تب انسانیت خاموش کھڑی تھی اورآج تیس سال بعد،ہم صرف تقریریں کرتے ہیں،قراردادیں پاس کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔۔کیا یہی ہمارے ایمان کی گہرائی ہے؟ کیا یہی امت محمدیہ کی غیرت ہے؟۔۔۔۔اندلس کی شکست ہو،بغداد کی تباہی ہو،دہلی کی خاکستر بستیاں ہوں، یا آج کا غزہ۔۔۔۔۔۔۔ہر جگہ ایک ہی کہانی دہرائی گئی۔۔۔مسلمان قتل ہوتے رہے اورامت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی۔ سربرینیکا انہی سانحات کا تسلسل ہے،جہاں صرف انسان نہیں مرے، ضمیر مرا، درد مرا، حیاء مری اور ہم سب تماشائی بنے رہے۔۔۔۔

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امتِ مسلمہ کے سینے میں دل کے بجائے پتھر رکھ دیے گئے ہیں۔۔۔۔ جہاں ایک فلسطینی بچے کی لاش پر بھی صرف “افسوس” کے الفاظ ہوتے ہیں اور ایک بوسنیائی ماں کے آنسو ہمیں صرف لمحاتی دکھ دیتے ہیں، اس کے بعد ہم پھر سے اپنی سیاست،اپنے مفادات اور اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر یہ ظلم یہودیوں پر ہوا ہوتا تو آج ہولو کاسٹ جیسے میوزیم دنیا بھر میں بن چکے ہوتے۔۔۔۔اگر یہ مظلوم عیسائی ہوتے تو پوپ خود ان کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتا لیکن چونکہ وہ مسلمان تھے،اس لیے ان کا خون بے رنگ،ان کی چیخیں بے آواز اور ان کی قبریں بے شناخت رہ گئیں۔۔۔۔۔ 

میرا یہ کالم ایک فریاد ہے۔۔۔۔۔۔ان ماؤں کی طرف سے جن کے بیٹے آج بھی شناخت کے انتظار میں اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔۔۔۔۔یہ ایک پکار ہے ان بچوں کی طرف سے جو بڑے تو ہو گئے مگر یتیمی کا داغ ان کے ماتھے سے نہ مٹ سکا۔۔۔۔ اور یہ ایک تھپڑ ہے امت کے ان لیڈروں کے منہ پر جو آج بھی اتحاد کے بجائے تخت و تاج کی جنگ میں مصروف ہیں۔۔۔۔

کاش کبھی ہم جاگیں۔۔۔۔۔کاش کبھی ہم درد کو صرف خبر نہ سمجھیں،بلکہ اپنے جسم میں محسوس کریں۔۔۔۔۔کاش ہم کبھی سربرینیکا،غزہ،کشمیر،برما اور شام کی قبروں میں جا کر ان شہداء سے معافی مانگیں کہ ہم ان کے حق میں کچھ نہ کر سکے۔۔۔۔۔ہم نہ ان کے لیے آواز بنے،نہ شعلہ،نہ روشنی۔۔۔۔ ہم صرف ایک مجمع رہے۔۔۔۔۔۔خاموش، مردہ اور بے سمت۔۔۔۔۔

سربرینیکا ختم نہیں ہوئی، وہ آج بھی جاری ہے۔۔۔ ہر اس جگہ جہاں مسلمان صرف اپنے عقیدے کی بنا پر ظلم کا شکارہے، ہر وہ لمحہ سربرینیکا کی بازگشت ہے۔۔۔۔۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔۔۔۔۔ وہ پوچھیں گی کہ تم نے اپنی تاریخ کے زخمی بابوں کو کیوں نظرانداز کیا؟ تم نے خون کے دریاؤں کو کیوں فقط اخباری شہ سرخیوں میں سمیٹا؟ تم کیوں نہ اٹھے۔۔۔۔۔؟ اور ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ کیونکہ سربرینیکا صرف ایک واقعہ نہیں تھا۔۔۔۔۔وہ ہمارے مردہ دلوں کا ماتم تھا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس