یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کریں، جس کا آغاز ممکنہ طور پر پیر سے ہو سکتا ہے۔ یہ اپیل اس وقت سامنے آئی جب جرمنی، فرانس، برطانیہ اور پولینڈ کے رہنما ہفتے کے روز کیف پہنچے۔
عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق جرمنی کے نئے چانسلر فریڈرک مرز، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور ان کے پولش ہم منصب ڈونلڈ ٹسک ہفتے کی صبح کیف کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر ایک ساتھ پہنچے۔ بعد ازاں انہوں نے یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔
یہ ملاقاتیں اس بات کی علامت ہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں نئی سنجیدگی اختیار کر رہی ہیں، باوجود اس کے کہ امریکہ کی جانب سے جاری امن کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔
یوکرین کے صدارتی چیف آف اسٹاف آندری یرماک نے اپنے ٹیلیگرام پیغام میں لکھا کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے اور کئی معاملات پر بات چیت ضروری ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ ایک منصفانہ امن کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ماسکو کو جنگ بندی پر مجبور کرنا ہوگا۔
یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی فوری اور غیر مشروط 30 دن کی جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کی حمایت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کر رہے ہیں۔
یوکرینی وزیر خارجہ اندری سیبیہا کے مطابق، ہفتے کو کیف میں موجود یورپی رہنماؤں کی ٹرمپ سے ایک نتیجہ خیز کال ہوئی جس میں امن مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین اور تمام اتحادی زمین، فضا اور سمندر میں کم از کم 30 دن کے لیے مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، جس کا آغاز پیر سے ممکن ہے۔ یہ جنگ بندی اگر پائیدار ثابت ہوئی تو یہ مکمل امن مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہے، بشرطیکہ روس رضامند ہو۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں بتایا کہ وہ ہفتے کی صبح 20 سے زائد عالمی رہنماؤں کے ساتھ ایک کال میں شامل ہوئے تاکہ یوکرین میں منصفانہ اور دیرپا امن کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوشش ایک 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی سے شروع ہونی چاہیے، جسے مسلسل اور ٹھوس حمایت حاصل ہو۔