اپریل 9, 2025 12:13 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

جاپان کی جیل بزرگ خواتین کی’پناہ گاہ‘بن گئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

جاپان کے بزرگ شہریوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے زندگی کا درد اور تنہائی کا سامنا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض معمر خواتین اپنی زندگی کو جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ تنہائی کے بجائے کمیونٹی اور تحفظ کا احساس پاتی ہیں۔

یہ کہانی جاپان کی سب سے بڑی خواتین کی جیل ‘توچیگی ویمنز پرزن’ کی ہے جہاں معمر قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جیل کے اندرونی ماحول کو ایک نرسنگ ہوم کی طرح بنا چکی ہے۔

‘توچیگی ویمنز پرزن’جو ٹوکیو کے شمال میں واقع ہے،اس جیل میں بوڑھی خواتین کی بڑی تعداد قید ہےاور جیل کے افسران کے مطابق یہ خواتین زیادہ تر اپنی زندگی میں تنہائی اورغربت کا شکار ہوتی ہیں اور جیل کی دیواروں کے اندر جہاں معمر قیدی آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور واکر کا سہارا لیتے ہیں،وہیں وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون اور تحفظ کی تلاش میں ہیں،کچھ خواتین تو یہاں ہمیشہ رہنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔

توچیگی ویمنز پرزن کی ایک 81 سالہ قیدی ‘آکیو’ نے ’سی این این‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”یہ جیل شاید میری زندگی کا سب سے مستحکم حصّہ ہے،یہاں اچھے لوگ ہیں اور زندگی گزارنے کا ماحول بھی بہتر ہے۔آکیو ضرورت کی بنا پر کھانے پینے کی اشیاء چوری کرنے کے جرم میں جیل کاٹ رہی ہیں۔ان کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب وہ اپنی چھوٹی سی پنشن پر زندگی گزار رہی تھیں اور ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

یہ صورتحال جاپان کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی بحران کی عکاسی کرتی ہے جہاں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں اضافے ہورہا ہے جبکہ بزرگ افراد غربت اور تنہائی کا بھی شکار ہیں۔

1

2022 میں جاپان کی جیلوں میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین قیدیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین کھانے پینے کی چیزیں چوری کرنے کے جرم میں قید ہیں۔

جاپان میں 65 سال سے زائد عمر کے 20فیصد افراد غربت کا شکار ہیں اور یہ شرح او ای سی ڈی کے 38 رکن ممالک کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔اکثر بزرگ قیدی جیل میں اس لیے آتے ہیں کیونکہ یہاں ان کو کھانا،مفت علاج،اورعمر رسیدہ نگہداشت ملتی ہے جو کہ باہر کی دنیا میں انہیں دستیاب نہیں ہوتی۔

توچیگی ویمنزپرزن کے ایک افسر تکیوشی شیرا ناگا نے سی این این کو بتایا کہ “کچھ لوگ یہاں آکر بس اس لیے رہنا چاہتے ہیں کہ وہ سردی اور بھوک سے بچ سکیں”۔

پہلی بار قید ہونے والی آکیو کی کہانی ایک سنگین حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ آکیو نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں جب غربت اور تنہائی کا سامنا کیا،تو انہوں نے کھانا چوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ آکیو کا کہنا ہے کہ”اگر میری زندگی میں مالی سکونت ہوتی تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔” ان کے بیٹے نے اکثر ان سے کہا کہ وہ بس “چلی جائیں” اور یہی رویہ آکیو کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتا رہا۔

توچیگی ویمنز پرزن میں معمر خواتین قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے جیل کی انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کے لیے خصوصی نگہداشت اور مدد فراہم کریں۔ جیل میں اب انہیں نہ صرف قید کی حالت میں رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی جسمانی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ وہاں موجود خواتین کو ان کے جسمانی مسائل جیسے کہ بیڈ سورز،کمزوری اور دیگر بیماریوں کا علاج فراہم کیا جاتا ہے۔جیل کی نگہداشت کی سہولتیں اب نرسنگ ہوم کی طرح کام کر رہی ہیں۔

لیکن مسئلہ صرف جیل کے اندر کے حالات تک محدود نہیں ہے۔ جب ان خواتین کو جیل سے رہا کیا جاتا ہے تو انہیں دوبارہ معاشرتی زندگی میں قدم رکھنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ توچیگی کے ایک افسرمیگومی نے بتایا کہ جب یہ قیدی رہا ہو کر باہر آتی ہیں تو ان کے پاس نہ کوئی خاندان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مدد فراہم کرنے والا،ان کے لیے دوبارہ سے زندگی شروع کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

جاپانی حکومت نے اس مسئلے کی سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے،اور تسلیم کیا ہے2021 میں اعلان کیا تھا کہ جو بزرگ قیدی رہا ہو کر واپس معاشرے میں جاتے ہیں انہیں مدد دینے والے پروگرامز میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ جرائم کا ارتکاب نہ کریں۔ تاہم جاپان کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور کم پیدائش کی شرح حکومت کےلیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے جس پر حکومت کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس