Follw Us on:

جنگ کی دہلیز سے واپسی، فاشسٹ مودی سرکار اور عالمی طاقتوں کا کردار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

دلی سرکار کی ہٹ دھرمی اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ پلوامہ کے سائے سے نکلنے سے انکار، پہلگام کے افسوسناک واقعے پر غیر سنجیدہ ردعمل اور اس کے بعد سرحد پار کارروائی کی جلد بازی اس بات کی گواہی ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر انتہا پسندی،انتخابی فائدے اور قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول جنگی جنون کا پرچار کیا اور ایسے میں جب خطے میں موسمیاتی تباہی نے عوام کو بے حال کر رکھا ہے، نئی دہلی نے اپنے پڑوسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے فضا کو” بارود آلود“ کر دیا۔ پہلگام حملے میں 26 بے گناہ افراد کا قتل یقیناً ایک افسوسناک سانحہ ہے، جس کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان نے اس کی بروقت اور فوری پیش کش بھی کی مگر اس سانحہ سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ تھا کہ مودی سرکار نے اپنی پرانی روش اپناتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور تفتیش کے فوری طور پر پاکستان پر الزام دھر دیا۔

اس غیر سنجیدہ اور خطرناک طرزِ عمل نے دو ایٹمی ممالک کو ایک مرتبہ پھر براہ راست فوجی تصادم میں دھکیل دیا اور پھر بھارت نے اپنی عسکری برتری جتانے کے زعم میں تمام حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں میزائل اور ڈرون حملے شروع کر دیے، بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ اور کوٹلی سمیت متعدد مقامات پر مساجد کو شہید کرتے ہوئے بے گناہ اور معصوم پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، مودی سرکار کی جانب سے اس جارحیت اور سفاکانہ کارروائی کا مقصد محض سیاسی فائدہ اٹھانا اور بھارتی عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی زوال سے ہٹانا تھا۔

لیکن اس بار پاکستان نے بھی جواب میں کوئی مصلحت نہیں برتی۔ جب دشمن نے جارحیت کی تو پاکستانی شاہینوں نے فضائی حدود میں اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے بزدل دشمن کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے دھول چٹا دی۔ دفاعِ وطن کے مقدس فریضے کو ادا کرتے ہوئے بہادرپاکستانی افواج نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ مدتوں نہیں بھول سکے گا۔ بھارتی فوجی ٹھکانوں،ایئربیسز اور ہتھیاروں کے ذخائر کو ہدف بنا کر پاکستانی افواج نے واضح پیغام دیا کہ مادرِ وطن کی حرمت پر آنچ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج نے نہ صرف دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کروا دیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار، باوقار اور دفاعی لحاظ سے مکمل خود کفیل ملک ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی ثالثی کے نتیجے میں بالآخر جنگ بندی کا اعلان ہوا اور دونوں ممالک نے تمام عسکری کارروائیاں روکنے پر رضا مندی ظاہر کی مگر سوال یہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی؟کیا بھارت کی سیاسی قیادت ہمیشہ خطے کے مسائل کو صرف ووٹ بینک اور الیکشن جیتنے کے تناظر میں دیکھتی رہے گی؟ کیا پاکستان ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہ کر بین الاقوامی دباو پر انحصار کرتا رہے گا؟ کیا جنوبی ایشیا کے عوام ہمیشہ جنگی جنون، نفرت انگیز بیانیے اور مذہبی تعصب کی آگ میں جھلستے رہیں گے؟

بھارت اور پاکستان دو ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے درمیان کسی بھی فوجی تصادم کے نتائج نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ نریندرا مودی کی قیادت میں ہندوستان کا جنگ کی جانب جھکاو انتہائی افسوسناک اور خودکشی کے مترادف ہے۔ جب عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے مذہبی منافرت اور عسکری جنون کو بڑھاوا دیا جائے، جب بھارتی میڈیا حب الوطنی کے نام پر زہر اگلنے لگے، جب عسکری قیادتیں اپنی موجودگی کو سیاسی ضرورت بنائیں، تب امن کا خواب ایک تمسخر بن جاتا ہے۔

بھارت کی جانب سے بارہا پاکستان پر الزام تراشی اور سرجیکل سٹرائیک کے نام پر ڈرامے بازی کرنا، ایک پرانی اور آزمودہ چال ہے، جس کا مقصد صرف انتخابی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ 2019 کی بالاکوٹ سٹرائیک کا انجام بھی دنیا نے دیکھا تھا، جب بھارتی طیارہ پاکستانی حدود میں مار گرایا گیا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو چائے پلا کر واپس بھیجا گیا۔ پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، جذبہ شہادت اور حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جس انداز میں انہوں نے حالیہ جارحیت کا جواب دیا، وہ محض ایک عسکری ردعمل نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر کمزوری کا ہرگز مظاہرہ نہیں کرے گا۔

دشمن کو اگر امن کی زبان سمجھ نہیں آتی، تو وہ ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھے۔ اس کشیدہ صورتحال میں اگر علاقائی ممالک کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ترکیہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ انقرہ سے جاری ہونے والے بیان میں ترکیہ نے پاکستان کے دفاعی اقدامات کو جائز قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور خطے کے امن کو داو پر نہ لگائے۔ ترکیہ کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دفاع دراصل خطے کے امن کا دفاع ہے۔ چین کا ردعمل نسبتاً محتاط مگر بامعنی رہا۔ بیجنگ نے فوری طور پر فریقین سے تحمل کی اپیل کی اور بند کمرے کی سفارتی کوششوں میں سرگرم رہا۔ ذرائع کے مطابق چین نے اقوام متحدہ کی سطح پر بھارت کے خلاف نرم رویہ رکھنے کے باوجود، پس پردہ پاکستان کے موقف کی تائید کی اور بھارت کو عسکری حد سے تجاوز نہ کرنے کی وارننگ دی۔ ایران کا موقف بھی ثالثی پر مبنی رہا۔ تہران نے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے، خطے میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا البتہ ایران نے کسی ایک ملک کی کھل کر حمایت نہیں کی اور عمومی سفارتی زبان استعمال کی۔ سعودی عرب کی پالیسی روایتی مگر اہم رہی۔ سعودی وزیر خارجہ پہلے بھارت گئے، جہاں انہوں نے مودی سرکار کو دو ٹوک انداز میں کہا کہ سعودی عرب خطے میں جنگ نہیں بلکہ معاشی ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ بعد ازاں پاکستان آ کر وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں تحمل اور معاملہ فہمی کی تلقین کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے پر زور دیا اور اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

سعودی عرب کا کردار توازن پر مبنی رہا تاہم ان کے سفارتی دباو نے بھارت پر اثر ڈالا،جس کے بعد مودی حکومت نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی، اس تمام صورتحال میں عالمی برادری کا کردار بھی اہم ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے حالیہ جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا گیا، وہ قابل تحسین ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف عارضی ریلیف ہے یا مستقل پالیسی کا پیش خیمہ؟

عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ محض وقتی امن پر اکتفا نہ کریں بلکہ مسئلہ کشمیر کے بنیادی حل کی جانب پیش رفت کروائیں، جو اس تمام کشیدگی کی جڑ ہے۔ پاک بھارت سیز فائر کے بعد اگرچہ عارضی سکون دیکھنے میں آیا مگر بھارتی میڈیا اور حکومتی نمائندے بدستور جنگی بیانیے کو ہوا دے رہے ہیں۔اس دوران او آئی سی یعنی اسلامی تعاون تنظیم نے ایک اہم بیان جاری کیا جس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا گیا اور ثالثی کرنے والے ممالک کی کوششوں کو سراہتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کو تعمیری مکالمے پر آمادہ کرے تاکہ دیرینہ تنازعات کا پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔

او آئی سی نے کہا کہ ہم جموں و کشمیر کے مسئلے کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا میں دو جوہری طاقتوں کے درمیان تناو سے بچا جا سکے۔ او آئی سی نے جنوبی ایشیا میں عسکری کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقین سے تحمل اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے سے گریز کی اپیل بھی کی۔ ان تمام پہلووں کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اگر بھارت ہٹ دھرمی ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آتا ہے تو پاکستان نہ صرف خیر مقدم کرے گا بلکہ اپنے جغرافیے اور نظریے کی حدود میں رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کو بھی تیار ہے، اگر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند ہو، اگر وہاں کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور اگر بھارت اقلیتوں کے خلاف تعصب پر مبنی پالیسی ترک کرے تو امن خود بخود پھلنے پھولنے لگے گا۔

امن صرف سیاسی بیانات سے قائم نہیں ہوتا۔ امن کے لیے نیت، نرمی اور برداشت درکار ہوتی ہے۔۔۔پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ بھارت سے پرامن تعلقات چاہتا ہے مگر برابری کی بنیاد پر۔ نہ جنگ کی خواہش ہے، نہ جھکنے کا ارادہ۔ جو ریاست اپنے عوام کی فلاح، اپنے نوجوانوں کی رہنمائی اور خطے کی خوشحالی چاہتی ہے، وہ جنگ نہیں چاہتی اور جو حکومت اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دشمن تخلیق کرے، وہ امن کی دشمن ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے مستقبل کی تعمیر کی جانب بڑھیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، ماحولیاتی تحفظ اور علاقائی تجارت جیسے موضوعات پر بات چیت ہو۔ ویزا پالیسی آسان کی جائے، صحافیوں، ادیبوں اور کاروباری افراد کو ایک دوسرے کے ممالک میں جانے دیا جائے اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔

اگر ایسا نہ ہوا تو نوجوان مزید مایوس ہوں گے، مہاجرین کی تعداد بڑھے گی،معیشت تباہ ہو گی اور دنیا ہمیں صرف ایک خطرناک خطے کے طور پر یاد رکھے گی۔ ایک ایسا خطہ جو اپنی زمین کو ترقی دینے کے بجائے اسے بارود سے بھرتا رہا۔ ایک ایسا خطہ جو اپنی عوام کو خوشحال بنانے کے بجائے انہیں دشمنی کے نام پر استعمال کرتا رہا۔ اب فیصلہ مودی سرکار اور بھارتی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا وہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے یا ایک بار پھر اپنے غرور،ہٹ دھرمی اور فاشسٹ سوچ کو عوام پر مسلط کریں گے؟پاکستان نے اپنا فرض نبھایا ہے، دشمن کو جواب بھی دیا اور امن کی راہ بھی دکھائی ہے۔ اب دنیا کو یہ دیکھنا ہے کہ نئی دہلی اس موقع کو غنیمت جانتی ہے یا تاریخ کی ایک اور تلخ قسط لکھنے پر بضد رہتی ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس