Follw Us on:

غزہ میں جنگ بندی نافذ، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا آغاز

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ / گوگل

غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری خون ریز جنگ کے بعد جنگ بندی کا طویل انتظار بالآخر ختم ہوگیا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے تحت یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

حماس انتظامیہ کی جانب سے تین اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کے نام جاری کیے گئےہیں، جنھیں بعد میں بہت جلدرہا کیا جاناہے۔ ان خواتین یرغمالیوں میں 31 سالہ ڈورون اسٹین بریچر،دوہری شہریت رکھنے والی 28 سالہ برطانوی اسرائیلی شہری ایملی ڈاماری، اور 24 سالہ رومی گونن شامل ہیں۔

یاد رہے کہ  جنگ بندی کا عمل تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کا شکار ہواہے، کیونکہ حماس کی جانب سے اسرائیل کو یرغمالیوں کے نام بروقت فراہم نہیں کیےگئے۔  حماس نے اس تاخیر کو تکنیکی وجوہات قرار دیاہے۔ دوسری جانب حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جنگ بندی کے آغازمیں تاخیر سے  اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے جاری رکھے گئے ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں  تقریباً  19 سے زائدافراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری اس جنگ میں اب تک غزہ میں تقریباً 46,800 سے زائد معصوم فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔

واضح رہے کہ حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے میں طے پایا گیا ہے کہ  حماس مرحلہ وار اسرائیلیوں کو رہا کرے گا ۔ جس کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔

جنگ بندی معاہدےکے تحت یرغمالیوں اور قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سات دنوں کے دوران مزید اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل سے 90 فلسطینی قیدیوں کی فہرست کا انھیں انتظار ہے، جن کے بدلے میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کے مطابق جنگ بندی میں ثالثی کردار ادا کرنے والے مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے چھ ہفتوں کے مرحلے میں کل 1,890 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔دوسری جانب اسرائیل کی وزارت انصاف نے 734 قیدیوں اور زیر حراست افراد کی آزادی کی ایک فہرست جاری کی ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ وہ 1,890 میں شامل ہوں گے،  باقی افراد کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔

تازہ ترین صورت حال کے مطابق جنگ بندی کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے تباہ شدہ علاقوں کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بے گھر افراد اپنے گھروں کے قریب خیمے لگا کر رہنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے علاقوں میں واپس ہونے کا احساس برقرار رکھ سکیں۔

دوسری جانب  غزہ شہر کے ایک بےگھر رہائشی سلیم نبھان نے غیرملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئےہیں، لیکن ہم خیمے لگا کر اپنے علاقے میں قیام کریں گے تاکہ یہ محسوس ہو کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ کر آگئے ہیں۔

اگر اسرائیلی یرغمالیوں کی بات کی جائے تو حماس کی جانب سے یرغمال بنائی گئی پہلی تین خواتین کو سب سے پہلےریڈ کراس کے حوالے کیا جائے گا، جس کے بعد انہیں اسرائیلی فوج کے سپرد کیا جائے گا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق انھیں طبی معائنے کے بعد تل ابیب کے شیبا میڈیکل سینٹر منتقل کیا جائے گا۔ شیبا میڈیکل سینٹر کے ترجمان سٹیو والز نے بی بی سی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یرغمالیوں کو ممکنہ طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا جائے گا اور ان کا طبی معائنہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب دوہری شہریت رکھنے والی 28 سالہ ایملی ڈاماری کے خاندان کی جانب سے اس کی رہائی کا سن  کا خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایملی کی والدہ مینڈی ڈاماری نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئےکہاکہ یہ ایک اذیت ناک 471 دن رہے ہیں، لیکن خاص طور پر گزشتہ 24 گھنٹے انتہائی مشکل تھے۔ ان میں کچھ بھی ہوسکتا تھا، جب تک ایملی صحیح سلامت گھر نہیں پہنچ آتی مجھے سکون نہیں  آئے گا۔

یاد رہے کہ جنگ بندی کے اس معاہدے میں قطر کی جانب سے کلیدی کردار ادا کیا گیا ہے۔ قطری حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پیچیدہ عمل تھا، لیکن ہمیں خوشی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز ہورہا ہے۔

قطری ثالثوں کے مطابق معاہدے کے تحت حماس ہر روز چند اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔

بی بی سی نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے مطابق خوراک اور دیگر امدادی سامان کے 4,000 ٹرک غزہ میں داخلے کے منتظر ہیں۔ یواین آر ڈبلیو اےکے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے بعد امداد کی فراہمی میں تیزی آئے گی۔

دوسری جانب یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے اسرائیل میں ملے جلے جذبات پائے گئے ہیں۔ کچھ افراد کی جانب سے  اس معاہدے کو دہشت گردی کی فتح قرار دےدیاگیا، جب کہ زیادہ تر افراد کی جانب سے یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی کے معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیاگیا۔

اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر نے جنگ بندی پر اعتراض کیا ہے، جنگ بندی معاہدہ ہونے پر وہ حکومت سے مستعفیٰ ہوگئے ہیں۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کیا گیاتھا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی حملے کیے، جنہوں نے علاقے میں وسیع تباہی مچادی۔اسرائیل کی جانب سے ظلم وستم کی انتہا کی گئی اور معصوم بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد سے اب تک غزہ میں تقریباً 46,800 سے زائد معصوم فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس